طالبان سے معاہدے پر ٹرمپ ’ہزاروں فوجیوں کو واپس‘ بلا لیں گے

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ 2020 میں ہونے والے انتخاب سے قبل فوجیوں کو واپس بلانا چاہتے ہیں۔

افغانستان میں امریکی فوجیوں کی تعداد وقت کے ساتھ ساتھ تبدیل ہوتی رہی ہے (اے ایف پی)

اطلاعات کے مطابق امریکہ طالبان کے ساتھ ابتدائی امن معاہدے کے تحت جلد افغانستان سے ہزاروں فوجیوں کو نکال لے گا۔

نائن الیون حملوں کے بعد اسامہ بن لادن اور ان کے طالبان میزبانوں کو سبق سکھانے کے لیے امریکی قیادت میں اس کے اتحادیوں کی افغانستان پر فوج کشی کے 18 برس بعد بلآخر صدر ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کے دوران کیے گئے وعدے کے مطابق جنگ زدہ ملک سے باقی ماندہ فوجیوں کے انخلا پر بظاہر عمل درآمد شروع کر دیا ہے۔

واشنگٹن پوسٹ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ طالبان سے امن معاہدے کی روشنی میں ابتدائی طور پر افغانستان میں موجود 14 ہزار فوجیوں میں سے سات یا آٹھ ہزار فوجیوں کو فوری طور پر واپس امریکہ بلانے کی تجویز پر عمل درآمد کیا جا سکتا ہے۔

اخبار کے مطابق اس منصوبے کے تحت طالبان کو دیر پا امن معاہدے کے لیے افغان حکومت سے براہ راست مذکرات کرنا ہوں گے جس سے وہ اب تک انکار کرتے رہے ہیں۔

رواں ہفتے امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے کہا تھا کہ صدر ٹرمپ 2020 کے انتخابات سے پہلے افغانستان سے لڑاکا دستوں کی واپسی چاہتے ہیں۔

خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق دی اکنامک کلب آف واشنگٹن ڈی سی سے خطاب کرتے ہوئے پومپیو کا کہنا تھا کہ ’یہ امریکی صدر کی جانب سے مجھے دی گئی ہدایت ہے۔ وہ اپنے مقصد میں واضح ہیں، وہ لامتناہی جنگ کا خاتمہ چاہتے ہیں، فوجیوں کی تعداد کم ہونی چاہیے۔ یہ صرف ہمارے لیے نہیں ہے۔ ہمیں امید ہے کہ خطے میں موجود مجموعی لڑاکا فوجیوں میں کمی کی جائے گی۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

افغانستان میں امریکی فوجیوں کی تعداد وقت کے ساتھ ساتھ تبدیل ہوتی رہی ہے۔ 2011 میں یہ تعداد سب سے زیادہ یعنی ایک لاکھ تھی جب امریکی خصوصی فورسز نے ہمسایہ ملک پاکستان میں اسامہ بن لادن کو ایک کارروائی کے دوران ہلاک کر دیا تھا۔ القاعدہ کے بانی سربراہ کی ہلاکت کے بعد اس وقت کےامریکی صدر باراک اوباما نے افغانستان میں فوجیوں میں کمی کا اعلان کیا تھا جبکہ دوسری جانب 2007 اور 2011 کے دوران عراق سے بھی فوجی انخلا شروع کر دیا گیا تھا۔

موجودہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ طویل عرصہ سے بیرون ملک تعینات فوجیوں کی واپسی کی حمایت کرتے رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے امریکہ کی بجائے نیٹو فورسز کو یہ خلا پُر کرنا چاہیے۔

صدر ٹرمپ نے رواں سال سٹیٹ آف دی یونین سے خطاب کرتے ہوئے بھی اسی عزم کو دوہرایا تھا۔

انہوں نے کہا تھا: ’عظیم قومیں لامتناہی جنگیں نہیں لڑتی۔ [امریکی افواج] کی بہادری کی بدولت ہم اس خونی [افغان] جنگ کا ممکنہ سیاسی حل نکالنے کے قابل ہو گئے ہیں۔ جیسا کہ ہم مذاکرات میں آگے بڑھ رہے ہیں تو ہم وہاں [افغانستان] سے اپنی فوجوں کی تعداد کم کرنے اور انسداد دہشت گردی پر اپنی تمام توجہ مرکوز رکھنے کے قابل ہو جائیں گے۔‘

مائیک پومپیو نے بھی ایسے ہی خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ افغانستان میں ستمبر میں صدارتی انتخابات شروع ہو رہے ہیں اور امریکہ اس دوران عسکریت پسندوں سے مذاکرات کے دوسرے دور کا آغاز کر رہا ہو گا۔

افغانستان میں اس وقت 20 ہزار سے زیادہ امریکی اور نیٹو فورسز کے فوجی تعینات ہیں جو مقامی افغان فورسز کو تربیت، معاونت اور مشورہ فراہم کرتے ہیں۔

18 سالوں سے جاری افغان جنگ کے دوران اب تک 2،372 امریکی فوجی، 450 برطانوی فوجی اور لاتعداد افغان شہری اور عکسریت پسند ہلاک ہو چکے ہیں۔

© The Independent

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا