آرمی پبلک سکول پر حملے والے دن کالم لکھتے ہوئے ہاتھ کانپ رہے تھے اور لائیو پروگرام کے دوران حلق سے بات نہیں نکل پا رہی تھی۔
گذشتہ روز پشاور پولیس لائنز کی مسجد میں ہونے والے دہشت گرد حملے کے بعد بھی کیفیت تقریباً وہی تھی۔ سانحہ آرمی پبلک سکول والے دن ماؤں کی سسکیاں اور ننھے تابوتوں کے مناظر دل چیرنے کے لیے کافی تھے اور پولیس لائنز حملے میں جوانوں کی نعشیں اور تابوت بھی دل بھر آنے کے لیے کافی تھے۔
آرمی پبلک سکول کے واقعے کے بعد پوری قوم نے دہشت گردی کے خلاف جنگ پر لبیک کہا، نیشنل ایکشن پلان لانچ ہوا، جگہ جگہ آپریشن ہوئے جن میں فوج اور سکیورٹی اداروں اور پولیس کے ہزاروں جوانوں نے جان کا نذرانہ پیش کیا اور نتیجتاً ہم نے پاکستان خصوصاً قبائلی علاقوں میں امن لوٹتا دیکھا۔
افغانستان میں طالبان کے برسراقتدار آنے کے بعد ہم جیسے ان خدشات کا اظہار کر رہے تھے کہ اب کالعدم تحریک طالبان پاکستان دوبارہ منظم اور مضبوط ہو گی اور ہمارے پالیسی ساز اداروں کو یہ فرق سمجھنا پڑے گا کہ افغان طالبان اور ٹی ٹی پی ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔
ہم اس غلط فہمی میں رہے کہ افغان طالبان ہمارے لیے ٹی ٹی پی کو کنٹرول اور قابو کر لیں گے، لیکن ہم یہ بھول گئے کہ ٹی ٹی پی افغان طالبان کے شانہ بشانہ امریکہ کے خلاف 20 سال جنگ میں شامل رہی۔ ابھی بھی ٹی ٹی پی کے ہزاروں جنگجو افغان طالبان کے رینکس کا حصہ ہیں۔ وہ کیونکر اور کیسے ٹی ٹی پی کو ریاست پاکستان کے سامنے ہتھیار ڈالنے پر مجبور کریں گے؟
کالعدم ٹی ٹی پی نے ملا ہبت اللہ اخونزادہ کے ہاتھ پر بیعت کی ہے اور وہ انہی کے احکامات ماننے کے پابند ہیں۔ اگر وہ ان کی حکم عدولی کرتے ہیں تو ان کی بیعت ازخود ختم ہو جاتی ہے لیکن آج تک طالبان کے وزیراعظم ہوں، وزیر خارجہ یا پھر امیرالمومنین، کسی نے کھل کر کالعدم ٹی ٹی پی کی کارروائیوں کی مذمت نہیں کی۔
سوال پھر یہ ہے کہ جب شدت پسندوں کی کمر ٹوٹ چکی تھی تو ان کے ساتھ مذاکرات کا فیصلہ کس نے اور کیوں کیا؟
ان مذاکرات کے بعد ہونے والے سیز فائر میں کالعدم ٹی ٹی پی کو بھرپور منظم ہونے کا ٹائم ملا۔ اس کے بعد سے انہوں نے سیز فائر ختم کر کے باقاعدہ حملے شروع کر دیے اور اب شہدا کے تابوت دیکھ کر پتہ نہیں کیوں سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض حمید کا کابل سرینا ہوٹل میں چائے کی پیالی پر وہ مشہور جملہ دماغ میں گونج رہا ہے کہ ’ایوری تھنگ ول بی آل رائٹ۔۔۔‘ لیکن میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ’سوری سر، ایوری تھنگ از ناٹ آل رائٹ!
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اب تو وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ یہ اقرار کر چکے ہیں کہ کالعدم ٹی ٹی پی سے مذاکرات بڑی غلطی تھی اور ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا لیکن مسلئہ یہ ہے کہ یہ غلطی کس نے کی؟ یہ فیصلہ کس کا تھا جس کا خمیازہ آج قوم بھگت رہی ہے؟ اس فیصلے کا احتساب ضرور ہونا چاہیے تاکہ قوم کا یہ اعتماد قائم رہے کہ ہماری ریاست کے اہم فیصلے محفوظ ہاتھوں میں ہیں۔
تین جنوری کو اپنے کالم ’2023 کے ایسے چیلنج جن پر اب سیاست کی گنجائش باقی نہیں‘ میں تحریر کر چکا ہوں کہ پاکستان کے مقتدر حلقے ہوں، حکومت یا اپوزیشن، سب کے لیے نئے سال میں کٹھن اور مشکل چیلنج اپنی جگہ موجود ہیں، لیکن اس وقت اس ملک کو دو ایسے چیلنجز درپیش ہیں، جن کا کوئی ایک فریق اکیلے مقابلہ نہیں کر سکتا۔
ضروری ہے کہ مل کر فیصلے لیے جائیں اور یہ طے کیا جائے کہ ان دو معاملات پر اب سیاست کی کوئی گنجائش نہیں۔ سٹیک ہولڈرز کو اپنے اختلافات بالائے طاق رکھ کر میثاق معیشت اور میثاق انسداد دہشت گردی کرنے پڑیں گے اور اس میں جتنی دیر ہو گی، اتنا ہی یہ دونوں معاملات سیاست اور گورننس کو اوور شیڈو کرتے جائیں گے۔
خدانخواستہ اگر ان دو چیلنجز کو سنجیدگی سے نہ لیا گیا تو ہم اس دلدل میں دھنستے چلیں گے جہاں سے ملک کو نکالنا کسی کے بس میں نہیں رہے گا۔
اس وقت ٹیکنوکریٹ حکومت کے شوشے چھوڑنا بے وقت کی راگنی ہے، جس سے صرف پہلے سے موجود غیر یقینی میں ہی اضافہ ہوگا۔
ایم کیو ایم اکٹھی ہو نہ ہو، باپ پارٹی تحلیل ہو نہ ہو، لوکل باڈیز انتخابات ہوں نہ ہوں، یہ سب کچھ بے معنی ہو گا، اگر خدانخواستہ پاکستان کے معاشی اور سکیورٹی حالات اتنے بگڑ جائیں کہ انہیں سنبھالنے میں ہر سیاسی جماعت اور اسٹیبلشمنٹ بے بس نظر آئے۔
افسوس لیکن یہ ہے کہ سیاسی جماعتیں ان دونوں معاملات پر پوائنٹ سکورنگ میں ہی مصروف ہیں۔ صرف امید ہی کی جا سکتی ہے کہ مے بی ون ڈے، آل ول بی آل رائٹ!
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔