ٹی ٹی پی کی پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن کو دھمکی کتنی تشویش ناک؟

ٹی ٹی پی نے خبردار کیا ہے کہ وہ پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے خلاف کارروائی کرنے پر غور کر رہی ہے جو پالیسی شفٹ کی طرف اشارہ کرتی ہے۔

کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے اپنے بیان میں بلاول بھٹو زرداری اور شہباز شریف کا نام لے کر خبردار کیا ہے (فائل فوٹو/ اے ایف پی)

کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے خبردار کیا ہے کہ وہ ملک کی اتحادی حکومت میں شامل دو بڑی سیاسی جماعتوں پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے خلاف کارروائیاں کرنے پر غور کر رہی ہے۔

تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے بدھ کو ایک بیان جاری کیا گیا ہے جس میں انہوں نے وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری اور شہباز شریف کا نام لے کر تنبیہ کی ہے۔

بیان میں کہا ہے کہ بلاول بھٹو اور شہباز شریف نے ’امریکہ کو خوش کرنے کے لیے ان (ٹی ٹی پی) کے خلاف اعلان جنگ کیا ہے۔‘

دہشت گردی سے متعلقہ امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ ٹی ٹی پی کی جانب سے اس قسم کا بیان پالیسی شفٹ کی عکاسی کرتا ہے کیونکہ اس سے پہلے ٹی ٹی پی کی جانب سے مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے خلاف کھل کر اس قسم کا بیان سامنے نہیں آیا تھا۔ ان کے مطابق موجودہ حالات میں ایسی دھمکی کا آنا تشویش ناک بات ہے۔

ٹی ٹی پی نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ ’تحریک طالبان پاکستان برسراقتدار پاکستان مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے خلاف ٹھوس اقدامات کرنے پر غور کر رہی ہے۔‘

ساتھ ہی انہوں نے اپنے بیان میں خبردار کیا کہ ’اگر یہ دو پارٹیاں اپنے موقف پر ڈٹی رہیں اور فوج کی غلامی کا نشہ ان کے دماغ سے نہ نکلا تو پھر ان کے سرکردہ لوگوں کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔‘

بیان میں عوام سے کہا گیا ہے کہ وہ ’ایسے سرکردہ لوگوں کے قریب نہ جائیں۔‘

رواں ہفتے پاکستانی قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں اس عزم کا اعادہ کیا گیا تھا کہ پرتشدد کارروائیاں کرنے والے تمام عناصر کو جڑ سے اکھاڑا جائے گا اور ریاست ان سے پوری طاقت سے نمٹے گی۔

قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کے بعد وزیراعظم شہباز شریف نے بھی اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ ’قومی سلامتی کمیٹی نے پاکستان میں دہشت گردی کے لیے ’زیروٹالرنس‘ کے عزم کا اعادہ کیا، اور ہر قسم کی دہشت گردی جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کا عہد دہرایا ہے۔‘

شہباز شریف نے اپنی ٹویٹ میں کہا تھا کہ ’دہشت گردی سے پوری ریاستی قوت سے نمٹا جائے گا۔ پاکستان کی سرزمین کے ایک ایک انچ پر ریاستی عمل داری کو یقینی بنایا جائے گا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

دوسری جانب پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین اور وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے بھی گذشتہ سال دسمبر میں اپنے دورہ امریکہ کے دوران ایک بیان میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان کو ملک کی ’ریڈ لائن‘ قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ ان کے خلاف ’سخت ایکشن لیں گے اور لے رہے ہیں۔‘

بلاول بھٹو نے پاکستان کی عسکری قیادت کے ساتھ ایک ملاقات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’ہم تنبیہ کر رہے تھے، نہ صرف اس ملاقات میں مگر اس سے دو تین دفعہ پہلے بھی، ہم بار بار کہتے رہے کہ تحریک طالبان پاکستان نے ایسا کوئی اشارہ نہیں دیا کہ وہ دہشت گردی کو چھوڑ رہے ہیں، پاکستان کا آئین مان رہے ہیں۔‘

انہوں نے کہا تھا کہ ’میرے خیال میں ابھی بھی یہ مناسب ہو گا کہ ہم افغان طالبان سے بات کریں اور ہم یہی پیغام بھیجتے رہے کہ ٹی ٹی پی پاکستان کی ریڈ لائن ہے، ہم ان کے خلاف اپنی سرزمین پر سخت ایکشن لیں گے اور لے رہے ہیں۔‘

کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے حال ہی میں دوبارہ سے ملک میں کارروائیاں کرنے کا اعلان کیا تھا جس کے بعد بلوچستان، خیبر پختونخوا سمیت اسلام آباد میں دہشت گردی کے واقعات دیکھے گئے ہیں۔

ادھر افغان طالبان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’حالیہ دنوں میں پاکستانی حکام افغانستان کے خلاف غلط بیانات دے رہے ہیں، جو قابلِ افسوس نہیں۔ اسلامی امارت پوری کوشش کر رہی ہے کہ افغان سرزمین پاکستان یا کسی اور ملک کے خلاف استعمال نہ ہو۔‘

بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ’ہم یہ مقصد حاصل کرنے میں پرعزم ہیں لیکن پاکستان کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اس صورتِ حال کا حل نکالے، بےبنیاد باتیں اور اشتعال انگیز بیانات نہ دے کیوں اس سے پیدا ہونے والا عدم اعتماد کسی کے حق میں نہیں۔‘

اس دھمکی کا ملکی سیاست پر کیا اثر پڑے گا؟

ٹی ٹی پی کی جانب سے اس قسم کا بیان مبصرین کے مطابق ایک پالیسی شفٹ ہے کیونکہ اس سے پہلے پاکستان مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کے خلاف کھل کر اس قسم کا بیان ٹی ٹی پی کی جانب سے سامنے نہیں آیا تھا۔

اس سے پہلے ٹی ٹی پی نے عوامی نیشنل پارٹی اور دیگر قوم پرست جماعتوں کے بارے میں ذکر ضرور کیا ہے، اور ان جماعتوں کے قائدین کو نشانہ بھی بنایا ہے لیکن موجود وفاقی حکومت کے دو بڑے سیاسی جماعتوں کے حوالے سے اس طرح کا بیان سامنے آنا ایک پالیسی شفٹ سمجھا جاتا ہے۔

رفعت اللہ اورکزئی گذشتہ تقریباً دو دہائیوں سے شدت پسندی کے امور کی رپورٹنگ کرتے ہیں اور ٹی ٹی پی کو بہت قریب سے کور کیا ہے۔

رفعت اللہ نے نامہ نگار اظہار اللہ کو بتایا پچھلے دو تین سالوں سے ٹی ٹی پی نے سویلین کو نشانہ بنانے اور سیاسی جماعتوں کے قائدین کو ٹارگٹ کرنے کی پالیسی میں تبدیلی کی تھی، لیکن اس وقت ایسا بیان آنا تشویش ناک ہے۔

انہوں نے بتایا، ’گذشتہ روز ہونے والے پاکستان کی قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں بہت سختی سے ٹی ٹی پی کی کارروائیوں پر بات کی گئی تھی اور بظاہر یہی لگ رہا ہے کہ ٹی ٹی پی نے یہ بیان اسی تناظر میں دیا ہے کہ انہیں پتہ چل گیا ہے کہ پاکستان اب ان کے خلاف کارروائی سخت کرے گا۔‘

دفاعی تجزیہ کار بریگیڈیئر ریٹائرڈ محمود شاہ ٹی ٹی پی کی بننے سے اب تک کے اس سے جڑے معاملات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔

 بریگیڈیئر محمود شاہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ٹی ٹی پی اب برائے نام ایک تنظیم رہ گئی ہے، اور اب وہ ایسے منظم نہیں ہے جس طرح ماضی میں تھی۔

انہوں نے بتایا، ’انہوں نے یہ دھمکی بیان کی حد تک دی ہے اور اس سے کسی قسم کی خوف پھیلانے کی ضرورت نہیں ہے اور نہ اتنے بڑے سیاسی جماعتیں ان سے خوف زدہ ہو سکتے ہیں۔‘

ان سے جب پوچھا گیا کہ کیا اس سے ملک میں آئندہ آنے والے انتخابی مہموں پر کوئی اثر پڑے گا، تو اس کی جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ’میں نہیں سمجھتا اس سے انتخابی مہم پر کوئی اثر پڑے گا کیونکہ اب ٹی ٹی پی کے چار پانچ ہزار لوگ ہی رہ گئے ہیں، اور ان چار پانچ ہزار سے میں نہیں سمجھتا کہ ملک کی بڑی سیاسی جماعتیں خوف زدہ ہو جائیں گی۔‘

ٹی ٹی پی کی جانب سے جاری بیان پر انڈپینڈنٹ اردو نے وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ اور پاکستان پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما فیصل کریم کنڈی سے تبصرہ لینے کی کوشش کی مگر ان سے رابطہ نہیں ہو سکا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان