کیا مکی آرتھر کے علاوہ کوئی اور کوچنگ نہیں کرسکتا؟

مکی آرتھر کے ملے جلے اور تنازعات سے بھرپور کوچنگ کیریئر کے باوجود ان پر پی سی بی کا اندھا اعتماد معنی خیز ہے کیونکہ ان کے علاوہ بہت سے مقامی اور غیر ملکی کوچز قومی ٹیم کی کوچنگ میں دلچسپی رکھتے ہیں، لیکن ان کے بارے میں بورڈ سننے کو بھی تیار نہیں ہے۔

12 جون 2013 کی اس تصویر میں مکی آرتھر  آئی سی سی چیمپیئنز ٹرافی کے دوران آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے درمیان میچ سے قبل پچ کا جائزہ لیتے ہوئے۔ مکی آرتھر اس وقت آسٹریلوی کرکٹ ٹیم کے کوچ تھے (اے ایف پی)

پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) نے اچھے بھلے کوچ ثقلین مشتاق کو ہٹا کر مکی آرتھر کو کوچ بنانے کا جو مشن امپاسبل شروع کر رکھا ہے، اس سے ایسا لگتا ہے کہ مکی آرتھر کے علاوہ دنیا میں کوئی کوچ ہے اور نہ کسی کو کوچنگ آتی ہے۔

حالانکہ مکی آرتھر کا کوچنگ کیریئر تنازعات سے بھرا ہوا ہے۔ انہوں نے کامیابیاں بھی حاصل کی ہیں لیکن ان کے سخت رویے کے باعث کھلاڑیوں کے ساتھ تنازعات نے ان کے ہر معاہدے کو وقت سے پہلے ہی ختم کروا دیا۔

مکی آرتھر، جو کبھی بھی ٹیسٹ کرکٹ نہیں کھیل سکے اور ان کا مختصر سا کیریئر صرف فرسٹ کلاس کرکٹ تک محدود رہا، وہ کبھی بھی بہت اچھے کھلاڑی نہیں رہے اور انہیں جنوبی افریقہ کی اوسط درجے کی ٹیموں میں ہی موقع مل سکا تھا۔

مکی آرتھر نے بہت جلد محسوس کرلیا تھا کہ وہ اچھے کھلاڑی نہیں بن سکتے، اس لیے انہوں نے 35 سال کی عمر میں ہی کوچنگ شروع کردی تھی۔

 ابتدا میں تو وہ ایک مقامی ٹیم کی کوچنگ کرتے رہے لیکن جب ان کی ٹیم نے ملکی ٹی ٹوئنٹی چیمپیئن شپ کے فائنل میں رسائی حاصل کی تو وہ بورڈ کی نظروں میں آگئے اور 2005 میں غیر متوقع طور پر انہیں جنوبی افریقہ ٹیم کا کوچ مقرر کردیا گیا۔

 اس وقت جنوبی افریقہ ٹیم پلیئر پاور کا شکار تھی اور ان کو لانے والے بھی چند کھلاڑی تھے۔

ان کی پہلی قومی اسائنمنٹ ہی ناکام ہوگئی جب ان کی کوچنگ میں جنوبی افریقہ آسٹریلیا سے دو سیریز ہار گیا۔

لیکن وہ خوش قسمت رہے کہ ایک روزہ میچوں کی سیریز آسٹریلیا سے جیت گئے، جس میں وہ مشہور زمانہ میچ بھی شامل تھا، جب دونوں ٹیموں نے 400 سے زائد رنز سکور کیے۔

مکی آرتھر 2010 تک جنوبی افریقہ کے کوچ رہے اور اس دوران پروٹیز نے نو ناقابل شکست سیریز کھیلیں جبکہ آسٹریلیا کے  علاوہ ہر ٹیم سے سیریز جیتی۔

سری لنکا کے خلاف آخری سیریز میں جنوبی افریقہ کی بدترین شکست نے ان کا معاہدہ ختم کروا دیا۔ اس دوران سینیئر کھلاڑیوں سے اختلافات شدید ہوگئے تھے۔

آسٹریلیا کی کوچنگ

2013  سے 2016 تک وہ آسٹریلیا کی کوچنگ کرتے رہے لیکن اس دوران آسٹریلین کھلاڑیوں کے ساتھ ان کے اختلافات اس قدر شدید ہوگئے تھے کہ کچھ کھلاڑیوں نے تو کھیلنے سے ہی انکار کردیا تھا۔

ان کا ہوم ورک سکینڈل ان کے لیے معاہدہ ختم ہونے کی وجہ بن گیا کیونکہ وہ کھلاڑیوں سے تحریری رپورٹ مانگتے تھے۔

کراچی کنگز

مکی آرتھر کے لیے پاکستان کے دروازے کھولنے میں کراچی کنگز کا اہم کردار ہے، جب انہیں 2016 میں پی ایس ایل کی اس ٹیم کا کوچ مقرر کیا گیا۔

کراچی کنگز ان کی کوچنگ میں پہلی چار ٹیموں میں پہنچ گئی اور جب مکی آرتھر کی کوچنگ کی وسیم اکرم نے تعریف کی تو انہیں کنگز نے 2019 تک اپنا کوچ رکھا۔

پاکستانی ٹیم کی کوچنگ

مکی آرتھر جب کراچی کنگز کی کوچنگ کر رہے تھے تو ان کے اس وقت کے بورڈ کے سربراہ نجم سیٹھی سے دوستانہ تعلقات ہوگئے۔ انہوں نے نجم سیٹھی کو ایک پریزینٹیشن میں قائل کرلیا کہ وہ قومی ٹیم کی کوچنگ ان کے سپرد کردیں، جس کے بعد مئی 2016 میں وہ پاکستانی ٹیم کے کوچ بن گئے۔

انہوں نے آتے ہی پاکستانی ٹیم کا کلچر سمجھ لیا اور طاقتور کھلاڑیوں سے دوستی گانٹھ لی۔

ان کے زمانے میں پاکستان نے ٹیسٹ اور ٹی ٹوئنٹی رینکنگ میں پہلی پوزیشن حاصل کرلی، جس سے ان کا کیس مضبوط ہو گیا۔

ان کا سب سے بڑا کارنامہ 2017 کی چیمپیئنز ٹرافی میں جیت تھی۔

پاکستان نے تیسری دفعہ کوئی آئی سی سی ٹورنامنٹ جیتا تھا، جس سے مکی آرتھر چھا گئے۔ اب ان کا طوطی بول رہا تھا۔

 اس دوران کئی کھلاڑیوں کے ساتھ ان کے اختلافات کی خبریں آئیں اور کچھ کھلاڑیوں نے اپنے کیریئر کے ختم ہونے کا الزام آرتھر پر لگایا، جن میں عمر اکمل پیش پیش تھے۔

ان کی کوچنگ کو سب سے اہم زک ورلڈکپ 2019 میں پہنچی جب پاکستان بری طرح ناکام ہوا۔ 

اس سے پہلے پاکستان جنوبی افریقہ کی کمزور ترین ٹیم سے سیریز ہار گیا تھا حالانکہ جنوبی افریقہ کی ٹیم کی کارکردگی بہت خراب تھی۔

پاکستان انہی دنوں سری لنکا سے پہلی دفعہ ہوم سیریز ہار گیا۔

مکی آرتھر کی کوچنگ کے انداز پر کھل کر تنقید ہونے لگی اور کھلاڑیوں نے برملا غصہ کا اظہار کرنا شروع کردیا تھا۔

یہ سب کچھ دیکھتے ہوئے 2018 میں پی سی بی کی نئی انتظامیہ نے ان کا معاہدہ جاری رکھنے سے انکار کردیا اور مصباح الحق کو کوچ مقرر کردیا۔  مکی آرتھر کافی عرصہ تک مصباح سے اس بات پر ناراض رہے۔

پاکستان کے بعد وہ کچھ عرصہ سری لنکا کے کوچ رہے لیکن ان کا دور ناکام ثابت ہوا۔

مکی آرتھر ایک بار پھر خبروں میں ہیں حالانکہ اب ان کے پاس کوئی قومی ٹیم نہیں ہے اور وہ انگلینڈ کی کاؤنٹی ڈربی شائر کی کوچنگ کر رہے ہیں۔

پی سی بی کے موجودہ سربراہ نجم سیٹھی ان کے بہت گرویدہ ہیں اور انہوں نے پہلے دن سے ہی مکی آرتھر کو لانے کی بات کی ہے لیکن ڈربی شائر کا معاہدہ اور پی سی بی میں حکومتی مداخلت کے باعث وہ فیصلہ نہیں کر پا رہے تھے۔

 انہیں مارچ سے کل وقتی ڈربی شائر کی کوچنگ کرنی ہے، جو ستمبر تک جاری رہے گی جبکہ پاکستان اس دوران نیوزی لینڈ اور سری لنکا سے دو سیریز کھیلے گا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اب بورڈ نے ان کو ہر صورت میں کوچ رکھنے کے لیے ڈائریکٹر ٹیم کا عہدہ تخلیق کیا ہے جو مختلف کوچز کو مینیج کرے گا اور آن لائن مشورے دے گا جبکہ پاکستانی ٹیم کے موجودہ فزیکل کوچ گرانٹ بریڈبرن معاون کوچ ہوں گے اور مکی آرتھر کے ساتھ رابطے میں ہوں گے۔

مکی آرتھر ٹیم کے لیے ایک کوچنگ مینؤل ترتیب دیں گے، جس پر گرانٹ عملدرآمد کروائیں گے۔ کاؤنٹی سیزن ختم ہونے پر وہ قومی ٹیم کے ساتھ منسلک ہوجائیں گے اور ورلڈکپ میں کوچ ہوں گے۔

پی سی بی نے اگرچہ آن لائن کوچنگ کی تردید کی ہے لیکن یہ نہیں بتایا کہ وہ انگلینڈ میں بیٹھ کر کس طرح کوچنگ کریں گے

مکی آرتھر اب کس قدر طاقتور کوچ ہوں گے، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ انہوں نے پہلے شان مسعود کو نائب کپتان بنوایا اور اب موجودہ مینیجر منصور رانا کو فارغ کرکے اسلام آباد یونائیٹڈ کے مینیجر ریحان الحق کو ٹیم مینجر بنانے کا عندیہ دے دیا ہے۔

بورڈ جس طرح ان کے احکامات پر عمل کر رہا ہے، اس سے بورڈ کی اپنی رِٹ پر بھی سوال اٹھ سکتے ہیں۔

مکی آرتھر کے  ملے جلے اور تنازعات سے بھرپور کوچنگ کیریئر کے باوجود ان پر پی سی بی کا اندھا اعتماد معنی خیز ہے کیونکہ ان کے علاوہ بہت سے مقامی اور غیر ملکی کوچز قومی ٹیم کی کوچنگ میں دلچسپی رکھتے ہیں، لیکن ان کے بارے میں بورڈ سننے کو بھی تیار نہیں ہے۔

اگر مکی آرتھر کی پاکستان کے ساتھ آخری اسائنمنٹ کو دیکھا جائے تو یہ سراسر ناکام نظر آتی ہے اور گذشتہ تین سال میں وہ کسی بھی اہم ٹیم کی کوچنگ حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔

انہیں بہت کوشش کے باوجود آسٹریلیا کی کسی ڈومیسٹک ٹیم کی کوچنگ نہیں مل سکی تھی اور ڈربی شائر کا معاہدہ بھی قلیل المدتی ہے۔

کیا ان کے آنے سے پاکستانی ٹیم سپر ٹیم بن جائے گی یا وہ ماڈرن کرکٹ کھیلنے لگے گی تو یہ خام خیالی ہوگی کیونکہ مکی آرتھر کا انداز ماڈرن کوچز سے بہت مختلف ہے اور برینڈن میکولم کی سطح کی کوچنگ ان کی سرشت میں شامل نہیں ہے۔

وہ پاکستانی ٹیم کےکوچ تو بن جائیں گے لیکن پاکستانی ٹیم کے انگلینڈ یا آسٹریلیا کی سطح کی ٹیم بننے کے لیے ان کے پرانے نسخے کارآمد نہیں ہوں گے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی کرکٹ