شام اور ترکی میں زلزلے سے 24 ہزار اموات، یتیم بچے در بدر

ہولناک زلزلے کے نتیجے میں اموات کی تعداد 24 ہزار کے قریب پہنچ گئی، جبکہ بہت سے یتیم بچے سرد موسم میں دربدری کا شکار ہیں۔

10 فروری 2023 کو زلزلہ متاثرین شام کے حلب کے دیہی علاقے عطریب کے ایک سکول میں قائم ایک عارضی کیمپ میں آباد ہیں، زلزلے کے بعد بہت سے بچے یتیم ہوگئے ہیں (اے ایف پی)

ترکی اور شام میں آنے والے ہولناک زلزلے کے نتیجے میں ہفتے کو اموات کی تعداد 24 ہزار کے قریب پہنچ گئی، جس کے بعد بہت سے یتیم بچے سرد موسم میں دربدری کا شکار ہیں۔  

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ سرد موسم نے لاکھوں متاثرین کی مشکلات میں اضافہ کر دیا ہے جب کہ بہت سے لوگوں کو امداد کی اشد ضرورت تھی۔

عالمی ادارے نے کہا ہے کہ زلزلے کے بعد دونوں ممالک میں کم از کم 870,000 افراد کو فوری طور پر خوراک کی ضرورت ہے جب کہ صرف شام میں 53 لاکھ بے گھر افراد کو فوری پناہ کی ضرورت ہے۔

پیر کے سات عشاریہ آٹھ شدت کے زلزلے کے بعد آنے والے آفٹر شاکس سے مرنے والوں کی تعداد میں ہر روز اضافہ دیکھا جا رہا ہے اور زندہ بچ جانے والوں کی زندگیاں مزید مشکلات کا شکار ہو گئی ہیں جن میں کئی یتم بچے بھی شامل ہیں۔

تباہ کن زلزلے کے دوران اپنے گھر کے ملبے کے نیچے پھنسی ہوئی شامی خاتون نے جس  بچی کو جنم دیا تھا اس کا نام ’آیا‘ رکھا گیا ہے جس کا عربی میں مطلب ہے ’خدا کی نشانی‘۔

ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق نوزائیدہ بچی کے والدین اور اس کے تمام بہن بھائی اس قیامت خیز زلزلے کی نذر ہو گئے اور اب اس کے والد کے چچا اس کی کفالت کریں گے۔

اس زلزلے نے ہزاروں بچوں کو یتیم کر دیا ہے۔ اس آفت سے شمالی شام اور جنوب مشرقی ترکی میں 24 ہزار ہزار سے زیادہ افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں۔

صبح سویرے آنے والے زلزلے سے ہزاروں اپارٹمنٹس کی عمارتوں ان کے رہائشیوں پر ڈھیر ہو گئیں اور اکثر لوگ اس وقت سو رہے تھے اس لیے اکثر پورے کے پورے خاندان ہلاک ہو گئے لیکن اس میں کئی ہزار بچے یتیمی کا بھی شکار ہو گئے۔

ڈاکٹروں اور ماہرین کا کہنا ہے کہ زیادہ تر معاملات میں رشتہ دار یتیم بچوں کو لے جاتے ہیں۔ لیکن شام میں زندہ بچ جانے والے رشتہ داروں کو خود اپنی جانوں کے لالے پڑے ہوئے ہیں اور کئی اپنے پیاروں کو ملبے میں تلاش کر رہے ہیں۔

زلزلے کے بعد جاری افراتفری میں مرنے والوں کی تعداد ہر روز بڑھتی جا رہی ہے جس کے بعد ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ یہ کہنا ناممکن ہے کہ کتنے بچوں نے اپنے والدین کو کھو دیا۔

ڈاکٹر خلیل السفوک نے بتایا کہ شمال مغربی شام کے ایک ہسپتال میں ایک سرخ بالوں والی سات سالہ لڑکی بار بار ان سے اپنے والدین کے بارے میں پوچھ رہی تھی۔

انہوں نے اے پی کو بتایا: ’ہمیں بعد میں پتہ چلا کہ وہ اپنے پورے خاندان میں زندہ بچنے والی واحد فرد تھی۔

نوزائیدہ بچی آیا کے معاملے میں اس کے والد کے چچا صلاح البدران اسے ہسپتال سے اپنے ساتھ لے جائیں گے۔

لیکن شمال مغربی شامی قصبے ان کا اپنا گھر بھی تباہ ہو گیا۔ انہوں نے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ وہ اور ان کا خاندان ایک منزلہ عمارت سے نکلنے میں کامیاب ہو گئے تھے لیکن اب وہ اور ان کے خاندان کے 11 افراد ایک خیمے میں رہنے پر مجبور ہیں۔

انہوں نے بتایا: ’زلزلے کے بعد کوئی بھی گھر یا عمارت رہنے کے قابل نہیں ہے۔ یہاں کی عمارتوں میں سے صرف 10 فیصد رہنے کے لیے محفوظ ہیں اور باقی ناقابل رہائش ہیں۔‘

اس شامی قصبے میں امدادی کارکنوں نے پیر کی سہ پہر زلزلے کے 10 گھنٹوں بعد کنکریٹ کے نیچے دبی ہوئی نوزائیدہ بچی کو نکالا تھا جو اس وقت بھی اپنی مری ہوئی ماں عفرا ابو ہادیہ سے جڑی ہوئی تھی۔ خاتون کے شوہر اور چار بچوں کی لاشیں بھی وہیں موجود تھیں۔

شام کے علاقے عفرین کے سیہان ہسپتال میں کام کرنے والے ڈاکٹر ہانی معروف نے کہا کہ عفرا ابو ہادیہ نے غالباً لڑکی کو جنم ملبے کے نیچے دبنے کے بعد ہی دیا تھا۔

ڈاکٹر معروف نے کہا: ’ہم نے اس کا نام آیا رکھا ہے۔ اس کی حالت دن بہ دن بہتر ہو رہی ہے اور اس کی ریڑھ کی ہڈی کو کوئی نقصان نہیں پہنچا جیسا کہ ابتدائی طور پر خدشہ تھا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اقوام متحدہ کے بچوں کے ادارے یونیسیف نے کہا کہ وہ ایسے بچوں کی نگرانی کر رہا ہے جن کے والدین لاپتہ یا ہلاک ہو گئے ہیں۔

عالمی ادارہ انہیں خوراک، کپڑے اور ادویات فراہم کر رہا ہے اور ہسپتالوں کے ساتھ رابطے میں ہے تاکہ خاندان دیگر افراد کا پتہ لگایا جا سکے جو ان کی دیکھ بھال کر سکتے ہیں۔

ترکی میں خاندانی اور سماجی خدمات کی وزارت نے ممکنہ گود لینے کے خواہش مند خاندانوں سے درخواستیں جمع کرانے کی اپیل کی ہے۔

وزارت نے کہا ہے کہ جن بچوں کے اہل خانہ یا رشتہ دار نہیں مل سکے ان کا فی الحال ریاستی اداروں میں خیال رکھا جا رہا ہے۔

شام کے حکومت مخالف فورسز کے زیرِ انتظام شہر عزاز کے قریب ایک غیر سرکاری تنظیم نے عارضی یتیم خانہ قائم کیا ہے جس میں اب تقریباً 40 بچے رہ رہے ہیں۔

شام کو پہلے ہی دہائی کی خانہ جنگی کے باعث یتیم بچوں کی بڑی تعداد کے بحران کا سامنا ہے۔

2011 میں شروع ہونے والی شام کی طویل خانہ جنگی میں لاکھوں افراد ہلاک ہو چکے ہیں جس سے یتیموں کی تعداد میں اضافہ دیکھا گیا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا