’مدر آف آل یو ٹرنز‘ اور امریکی سازش کا بیانیہ

اب عمران خان یہ الزام جس پر بھی لگائیں ایک بات طے ہو چکی ہے کہ حکومت سے نکلنے کے بعد انہوں نے دس ماہ میں جو بھی بیانیہ بنایا، اس پر یوٹرن لیا اور اب ان کے بیانات اور بیانیے کو ان کی لیڈر شپ بھی سپورٹ کرنے سے کترا رہی ہے۔

26 نومبر 2022 کو راولپنڈی میں پاکستان کے سابق وزیر اعظم عمران خان کے حامی پلے کارڈز اٹھائے ہوئے حکومت مخالف ریلی میں شریک ہیں (اے ایف پی)

آخرکار وہی ہوا جو ہم اپنے کالموں میں بار بار تحریر کرتے رہے کہ امریکی سازش کا بیانیہ بیچ چوراہے میں پھوٹنے والا ہے۔

حال ہی میں وائس آف امریکہ کو دیے گئے انٹرویو میں ’مدر آف آل یوٹرنز‘ لیتے ہوئے سابق وزیراعظم نے انکشاف کیا کہ نئے شواہد کے مطابق امریکہ نے پاکستان کو انہیں ہٹانے کے لیے نہیں کہا۔ ’یہ سازش وہاں سے امپورٹ نہیں ہوئی بلکہ جنرل (ر) باجوہ نے امریکہ کو یہ بتایا کہ میں (عمران خان) اینٹی امریکہ ہوں اور یہ سازش یہاں سے امریکہ ایکسپورٹ کی گئی۔‘

یعنی پہلے جلسے میں خط لہرا کر امریکہ پر براہ راست اپنی حکومت گرانے کا بھونڈا الزام لگایا، پھر آصف زرداری اور محسن نقوی سے ہوتے ہوئے اب یہ الزام جنرل (ر) باجوہ پر لگا دیا جنہیں وہ نہ صرف سب سے جمہوریت پسند جنرل کہتے تھے بلکہ رخصت ہوتے ہوئے انہیں ایک اور ایکسٹینشن کی آفر بھی کر چکے تھے۔

لیکن اب عمران خان یہ الزام جس پر بھی لگائیں ایک بات طے ہو چکی ہے کہ حکومت سے نکلنے کے بعد انہوں نے دس ماہ میں جو بھی بیانیہ بنایا، اس پر یوٹرن لیا اور اب ان کے بیانات اور بیانیے کو ان کی لیڈر شپ بھی سپورٹ کرنے سے کترا رہی ہے۔

گذشتہ برس پانچ اپریل کو ’آخر عمران خان نے ایسا رستہ کیوں چنا؟‘ کے عنوان سے تحریر کیے گئے کالم کی سطور سے اندازہ لگا لیں کہ جو اس وقت ہمیں نظر آ رہا تھا عمران خان کو دس ماہ بعد آخر کار اس کی سمجھ آ ہی گئی۔

اپنے کالم میں، تحریر کیا تھا: ’عمران خان کے بقول عدم اعتماد کی تحریک امریکی سازش تھی جس کا مقصد انہیں ہر صورت اقتدار سے باہر کرنا تھا۔ وہ الگ بات ہے کہ اسمبلیاں تحلیل کر کے اس سازش کو خود ہی کامیابی سے ہمکنار کر چکے ہیں۔ ڈپٹی سپیکر قاسم سوری نے امریکی سازش قرار دے کر عدم اعتماد کی تحریک اس دن مسترد کر دی جس دن اس پر ووٹنگ ہونا تھی۔ تحریک انصاف ایک ایسا بیانیہ بنانا چاہتی تھی جس سے ان کی بنیادی اور کور سپورٹ دوبارہ سے منظم ہو سکے اور اس بیانیے کی کامیابی کے لیے یہ دلیل دی جاتی ہے کہ عمران خان کی مقبولیت میں اضافہ ہو رہا ہے۔

’البتہ یہ بات پی ٹی آئی کو ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ آئین پاکستان اور امریکہ کے ساتھ ملکی تعلقات کی قیمت پر بنایا گیا یہ بیانیہ شاید کچھ عارضی کامیابیاں تو سمیٹ لے لیکن یہ حکمت عملی بہت سے معاملات میں آل ریڈی بیک فائر کر چکی ہے۔ اس وقت نوشتہ دیوار یہ ہے، جو کہ خان صاحب کو پڑھ لینی چاہیے کہ مبینہ امریکی سازش کا بھانڈا آئندہ آنے والے چند دنوں اور ہفتوں میں بیچ چوراہے پھوٹنے والا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اور ہوا بھی ایسے ہی۔ خان صاحب نے یوٹرن لے کر یہ تقریباً تسلیم کر لیا ہے کہ ریاستی معاملات اور اہم ممالک سے تعلقات پر سیاست کرنے سے نہ صرف ملک کو نقصان پہنچا بلکہ بطور سیاسی رہنما ان کی فیصلہ سازی پر بھی سوالیہ نشان اٹھا، لیکن کیا ایسی غلطی وہ دوبارہ نہیں دہرائیں گے؟ اس کا جواب شاید تحریک انصاف کی سینیئر لیڈر شپ بھی نہ دے پائے۔

اس وقت ملکی معاملات پر نظر ڈالی جائے تو حکومت نے جس طرح سے آئی ایم ایف سے معاملات کو ڈیل کرنے میں چند ماہ کی تاخیر کی، اس کا نقصان اب عوام اور ملکی معیشت کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ لیکن کوئی اس نکتے کی جانب توجہ نہیں دے رہا کہ ملکی معیشت کو سنھبالنا اب کسی ایک سیاسی جماعت یا حکومت کے بس میں نہیں رہا۔ اس وقت تمام سیاسی جماعتوں کو بیٹھ کر کم از کم ایک نکاتی ایجنڈے پر میثاق معیشت کر کے متفق ہونا پڑے گا کہ ان معاملات پر سیاست کی اب کوئی گنجائش رہی نہیں۔

یقیناً ایسا کرنے کے لیے پہل وزیراعظم شہباز شریف کو کرنی ہو گی لیکن اس بات کی گارنٹی بھی شاید ہی تحریک انصاف کو کوئی رہنما دے سکے کہ عمران خان صاحب کم از کم معیشت کے معاملات پر حکومت کے ساتھ بیٹھنے کو تیار ہوں گے۔

سابق وزیرخزانہ شوکت ترین کی اس وقت کے پنجاب کے وزیر خزانہ محسن لغاری اور پختونخوا کے وزیر خزانہ تیمور جھگڑا سے کی گئی گفتگو لیک ہوئی تو ایک کہرام برپا ہو گیا۔ اب تو شوکت ترین پر آئی ایم ایف کی ڈیل سبوتاژ کر کے ریاست کو نقصان پہنچانے کا مقدمہ بھی بن چکا۔ کتنا بدقسمت ملک ہے جہاں ایک سابق وزیرخزانہ پر غداری کا مقدمہ بنا دیا گیا لیکن کیا شوکت ترین نے جو کچھ کیا وہ اس پر معافی مانگنے کے لیے تیار ہیں؟

چاہے امریکی بیانیہ ہو یا شوکت ترین کی آئی ایم ایف کو خط لکھنے کی آڈیو لیک، اس عمل سے تاثر یہ ابھرا کہ تحریک انصاف سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتی ہے۔

بہرحال دیر آید درست آید خان صاحب نے نام نہاد امریکی سازش کے بیانیے پر تو یو ٹرن لے لیا، اب شوکت ترین صاحب کو اپنے عمل پر معافی مانگ لینی چاہیے اور اگر وہ ایسا کرتے ہیں تو حکومت کو بھی ان کے خلاف قائم کیا گیا غداری کا مقدمہ واپس لے لینا چاہیے۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ