شاہدہ نے بیٹے کی زندگی بچانے کے لیے اٹلی کا سفر کیا: بہن

حالیہ برسوں میں پے در پے پیش آنے والے سانحات کی وجہ سے شاہدہ رضا مجبور ہو گئیں کہ وہ اپنے تین سالہ بیٹے کی زندگی بچانے لیے اس کا علاج کروائیں۔

رواں ہفتے جنوبی اٹلی میں غیر قانونی طریقے سے یورپ جانے والوں کی کشتی ڈوبنے کے واقعے میں مرنے والی سابق پاکستانی ہاکی سٹار شاہدہ رضا کی لاش کا انتظار ان کے خاندان کے کرب میں اضافہ کر رہا ہے۔

شاہدہ رضا نے 2012 اور 2013 میں پاکستان کی خواتین ہاکی ٹیم کے ساتھ بین الاقوامی چیمپیئن شپ میں حصہ لیا تھا اور ایک موقع پر انہیں ٹیم کی ’جان‘ قرار دیا گیا تھا۔

حالیہ برسوں میں پے در پے پیش آنے والے سانحات کی وجہ سے شاہدہ رضا مجبور ہو گئیں کہ وہ اپنے تین سالہ بیٹے کی زندگی بچانے لیے اس کا علاج کروائیں۔

اس مقصد کے لیے انہیں پیسے اور موقعے کی اشد ضرورت تھی۔ ان کے بیٹے میں ایسی مرض کی تشخیص ہوئی جو فالج کا سبب بنتی ہے۔

شاہدہ رضا کے اہل خانہ نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ پاکستان میں ان کے لیے راستے بند ہو گئے تھے اور وہ اپنے بچے کو گھر پر چھوڑ کر گذشتہ سال قانونی طور پر ترکی چلی گئیں۔

اتوار کو وہ لکڑی سے بنی اس بدقسمت کشتی پر سوار ہوئیں جس میں تقریباً ڈیڑھ سو افراد موجود تھے۔

وسطی بحیرہ روم کا یہ راستہ غیر قانونی طریقے سے یورپ جانے والے افراد استعمال کرتے ہیں۔ یہ دنیا کا سب سے زیادہ ہلاکت خیز سمندری راستہ ہے۔

بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں شاہدہ رضا کے خاندانی گھر میں موجود ان کی بڑی بہن سعدیہ رضا نے بتایا کہ  ’شاہدہ خاندان کے ساتھ مسلسل رابطے میں تھیں اور میں نے اس المناک واقعے سے تقریباً ایک گھنٹے پہلے اتوار کی صبح ساڑھے چھ بجے ان سے بات کی تھی۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ وہ ٹھیک ہیں اور کشتی پر ہیں۔‘

کشتی جس میں گنجائش سے زیادہ لوگ سوار تھے سمندری طوفان کے باعث زیر آب چٹان سے ٹکرا کر ٹوٹی اور ڈوب گئی تھی۔ مرنے والوں کی لاشیں، جوتے اور دوسرا ملبہ طویل ساحل پر پہنچ کر پھیل گیا۔ اس المناک حادثے میں 70 کے قریب افراد کی موت کی تصدیق ہو چکی ہے۔

 شاہدہ کے اہل خانہ نے بتایا کہ اٹلی میں مقیم ایک جاننے والے کی مدد سے ان کی لاش کی تصویروں اور ایک قیمتی لاکٹ، جو ابھی تک ان کے گلے میں تھا، کے ذریعے شناخت کی گئی۔

 اہل خانہ کو ابھی تک پاکستانی یا اطالوی حکام کی طرف شاہدہ کی موت کے بارے میں باضابطہ اطلاع موصول ہوئی اور نہ ہی یہ بتایا گیا ہے کہ لاش کب واپس بھیجی جا رہی ہے۔

سعدیہ رضا نے شاہدہ کی جیتے ہوئے درجنوں تمغوں، ٹرافیوں اور ٹیم کی تصاویر، جو اب گھر کی الماری کی زینت ہیں، پر انگلیاں پھیرتے ہوئے کہا: ’پورا خاندان، خاص طور پر ہماری بوڑھی ماں، ہر گزرتے دن کے ساتھ اذیت کا سامنا کر رہی ہے۔‘

بیٹے کی پیدائش کے کچھ سال بعد شاہدہ کی شادی ختم ہو گئی تھی۔ اب ان کا بیٹا والد کے خاندان کا حصہ ہے۔

سانحات

شاہدہ رضا نے 2003 میں ہاکی کھیلنا شروع کیا تھا۔ وہ 2019 تک پیشہ ورانہ مقابلوں میں حصہ لینے کے بعد کوچنگ کی طرف متوجہ ہو گئیں۔

سخت قدامت پسند پاکستان میں خواتین کے لیے کھیلوں میں حصہ لینا اب بھی غیر معمولی بات ہے کیوں کہ خاندان انہیں اکثر اس سے روکتے ہیں لیکن شاہدہ کو مسائل کا شکار اپنی پسماندہ ہزارہ برادری سے دور ہاکی میں سکون ملا۔

کوئٹہ میں مقیم زیادہ تر شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے والی ہزارہ برداری عکسریت پسندوں کے پے در پے حملوں کا سامنا کر چکی ہے جن میں خود کش حملے بھی شامل ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

شاہدہ کی سہیلی اور ہاکی کی کھلاڑی سمیعہ کے بقول: ’شاہدہ نرم دل کی مالک، باتونی اور زندہ دل تھیں۔ ان کے چہرے پر ہمیشہ مسکراہٹ رہتی تھی لیکن زندگی کے صدمات، بیٹے کی بیماری، طلاق اور بے روزگاری نے انہیں بدل کر رکھ دیا تھا۔ وہ خاموش رہنے لگی تھیں اور اکیلا رہنا پسند کرتی تھیں۔‘

شاہدہ رضا نے حکومت اور پاکستان سپورٹس فیڈریشن سے مالی مدد کی اپیل کی تھی۔ وہ ملک کے بڑے ہسپتالوں میں گئیں لیکن ڈاکٹروں نے انہیں بتایا کہ ان کے بیٹے کو جو مرض لاحق ہے اس کا پاکستان میں کوئی علاج ممکن نہیں۔

سمیعہ نے کہا کہ اس کے بعد شاہدہ نے یورپی ملکوں کے ہسپتالوں میں ان کے بیٹے کے علاج کے امکانات دیکھنے کا عزم کر لیا۔ ’انہوں نے بیٹے کے علاج کو زندگی کا مقصد بنا لیا تھا اور اسی مشن کی تکمیل میں جان دے دی۔‘

بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بڑے پیمانے پر کارخانے بند ہونے کی وجہ سے پاکستان سخت معاشی بدحالی کی لپیٹ میں ہے۔

پاکستان کی وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) میں انسانی سمگلنگ ٹاسک فورس کے  اہلکار نے اس ہفتے اے ایف پی کو بتایا کہ ہر سال چالیس ہزار افراد غیر قانونی طور پر یورپ میں داخل ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔

نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ایف آئی اے کے اہلکار کا کہنا تھا کہ ’ ہماری بگڑتی ہوئی معاشی صورت حال اور روزگار کے فقدان کی وجہ سے یہ تعداد ہر روز بڑھ رہی ہے۔‘

مکسڈ مائیگریشن سنٹر کے 2022 کے سروے کے مطابق یورپ میں تقریباً 22 ملین پاکستانی ہیں۔ جنوبی ایشیائی ملک سے آنے والوں کے لیے اٹلی پسندیدہ ملک ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ زیادہ تر سمگلر غیر قانونی طریقوں سے آنے والوں کو یورپ لے جانے کے لیے ایران، ترکی اور یونان کا راستہ اختیار کرتے ہیں۔

اطالوی پولیس نے اتوار کو ملنے والے ملبے کے بعد تین مبینہ انسانی سمگلروں کو گرفتار کیا، جن میں دو پاکستانی اور ایک ترک شہری شامل ہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان