مرکز کا 2019 میں انڈیا کے زیرانتظام جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کا خاتمہ کشمیر میں تشویش کی ایک نئی وجہ ہے۔
دی ہندو ویب سائٹ پر شائع ایک رپورٹ کے مطابق پولیس کا تصدیق نہ کرنا، تاخیر یا منفی پولیس رپورٹ کی وجہ سے سینکڑوں افراد ملازمت اور پاسپورٹ سے محروم ہو گئے ہیں۔
اعلیٰ سرکاری ذرائع کے مطابق انڈیا کے زیرانتظام کشمیر میں یہ اعدادوشمار پانچ ہندسوں تک پہنچ گئے ہیں، جو گذشتہ ایک دہائی میں سب سے زیادہ ہے۔
سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی اور ان کی بیٹی التجا مفتی سمیت جموں و کشمیر کے کئی سیاست دانوں نے الزام لگایا کہ انہیں پاسپورٹ دینے سے انکار کیا جا رہا ہے۔ محبوبہ اور التجا مفتی نے عدالت سے رجوع کیا ہے۔
ملازمتیں دینے سے انکار کا ایک آلہ
46 سالہ ڈاکٹرعمران حفیظ سری نگر کے شیر کشمیرانسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (ایس کے آئی ایم ایس) میں انٹروینشنل کارڈیالوجی کے ایسوسی ایٹ پروفیسر کے طور پر کام کرتے ہیں۔
انہیں گذشتہ سال دسمبر میں متعدد انٹرویوز میں شرکت کے بعد ایڈیشنل پروفیسر کے طور پر ترقی دی جانی تھی۔
اگرچہ ایس کے آئی ایم ایس کے دیگر ڈاکٹروں کو ترقی دے دی گئی، لیکن ڈاکٹر حفیظ ان سات ڈاکٹروں میں شامل ہیں جنہیں ترقی نہیں دی گئی۔
ایس کے آئی ایم ایس انتظامیہ کے مطابق، ’ان کیسز میں پولیس تصدیق زیرالتوا ہے۔‘
ڈاکٹر حفیظ حریت چیئرمین میر واعظ عمر فاروق کے چچا مولوی مشتاق کے بیٹے ہیں۔ مشتبہ عسکریت پسندوں نے 2004 میں پرانے شہر کی ایک مسجد کے اندر مولوی مشتاق پر فائرنگ کر کے انہیں قتل کر دیا تھا۔
ان کا مقصد فاروق کی سربراہی میں حریت دھڑے کے ساتھ سری نگر- دہلی مذاکرات کو روکنا تھا۔
زیر التوا پولیس تصدیق، کشمیرمیں کچھ پیشہ ور افراد کو سرکاری نوکریوں سے محروم کرنے کا ایک ذریعہ بن گئی ہے۔
سری نگر سے تعلق رکھنے والے رشید (شناخت چھپانے کے لیے نام تبدیل کیا گیا) کو جل شکتی ڈپارٹمنٹ نے 2021 میں جونیئرانجینیئر کے طور پر تعینات کیا تھا۔ تاہم، ان کے انتخاب پر خاندان کی خوشیاں قلیل مدتی تھیں۔
سرکاری نوکری کرنے سے پہلے پولیس تصدیق لازمی ہے، لیکن سی آئی ڈی کی طرف سے یہ نہیں کی گئی۔
رشید کی عمر جب ایک سال سے بھی کم تھی تو ان کے والد 1999 میں برین ٹیومر کی وجہ سے انتقال کر گئے، جو فوڈ اینڈ سپلائی ڈپارٹمنٹ میں کام کرتے تھے۔
ان کی بڑی بہن نے کہا، ’میری والدہ کو اسی محکمے میں درجہ چہارم کی ملازمت (چپراسی) دی گئی تھی۔ انہوں نے اکیلے ہی پورے خاندان کی پرورش کی۔ انجینیئر بننے اور پھر کشمیر میں نوکری کے لیے اہل ہونے کے لیے بہت محنت کرنی پڑتی ہے۔‘
رشید، جو اب ڈپریشن کا شکار ہیں، اس امید میں روزے رکھتے اور دن میں پانچ وقت نماز ادا کرتے ہیں کہ پولیس کی تصدیق ہو جائے گی۔
انہوں نے کہا کہ ان کے بھائی کا نام کبھی کسی ایف آئی آر میں نہیں آیا۔
تاہم رشید کے چچا ان لوگوں میں شامل تھے جو 1990 کی دہائی میں پاکستان کے زیر انتظام کشمیر آئے تھے۔
’ہم نے انہیں (اپنے چچا) کو کبھی نہیں دیکھا، ہم نے سی آئی ڈی سے کہا کہ وہ ہمارے فون سکین کریں اور چیک کریں کہ آیا ہمارا ان سے کبھی کوئی تعلق تھا یا نہیں۔‘
رشید کی بڑی بہن نے کہا کہ انہوں نے سی آئی ڈی کے ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل آف پولیس آر آر سوین اور ڈائریکٹر جنرل آف پولیس دلباغ سنگھ کو خط لکھا تھا لیکن کوئی مثبت جواب نہیں ملا۔
پاسپورٹ کا انتظار
انڈیا کے زیرانتظام کشمیر میں سینکڑوں لوگوں کو ’سکیورٹی وجوہات‘ کی بنا پر پاسپورٹ دینے سے انکار کیا جا رہا ہے۔
2022 تک کشمیر یونیورسٹی میں سائنس دان کے طور پر کام کرنے والے عامر (تبدیل شدہ نام) کے لیے یہ ایک عجیب تجربہ رہا۔
سری نگر کے ریجنل پاسپورٹ آفس سے انہیں دو دن میں دو شوکاز نوٹس ملے، ایک 31 جنوری، 2023 کو اور دوسرا یکم فروری 2023 کو۔
پہلے خط میں عامر سے کہا گیا، صحیح تفصیلات کے ساتھ ایک نئی درخواست جمع کروائیں اور ان حالات کے بارے میں ایک مناسب وضاحت پیش کریں جن کے تحت آپ نے اپنی پاسپورٹ کی درخواست میں مواد کی معلومات کو چھپایا۔‘
اگلے دن ایک اور سرکاری خط میں کہا گیا کہ ان کا پاسپورٹ ضبط کر لیا گیا ہے۔
عامر نے کہا، ’مجھے یہ بھی نہیں بتایا گیا کہ میں نے کون سی معلومات چھپائی۔ میرا نام کسی ایف آئی آر میں نہیں۔ مجھے ریجنل پاسپورٹ آفس کے خط کا جواب دینے کے لیے ایک رات کا وقت دیا گیا جس کے بعد انہوں نے میرا پاسپورٹ ضبط کر لیا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے اس خوف کا اظہار کیا کہ یہ انہیں ملک سے باہر بہتر ملازمت کے حصول سے روکنے کی ایک کوشش ہے۔
وہ اس معاملے کو انڈیا کے زیرانتظام جموں و کشمیر کی ہائی کورٹ میں لے گئے جس نے شوکاز نوٹس روکتے ہوئے کہا کہ انہیں ’سماعت کا مناسب موقع‘ دیا جانا چاہیے۔
صحافیوں کو اپنے پاسپورٹ کے لیے پولیس کی تصدیق کے سخت نظام کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ 2019 کے بعد سے متعدد کشمیری صحافیوں کو ’نو فلائی لسٹ‘ میں ہونے کی وجہ سے ہوائی اڈوں پر روکا گیا۔
سری نگر سے تعلق رکھنے والی کشمیری فوٹو جرنلسٹ ثنا ارشاد مٹو کو 2022 میں کوویڈ 19 کوریج کے لیے پلٹزر پرائز ملا تھا۔
انہیں ایوارڈ وصول کرنے کے لیے دہلی سے جانے والی پرواز میں سوار ہونے سے روک دیا گیا تھا۔ تاہم اس کی کوئی وجہ نہیں بتائی گئی۔
جاوید (تبدیل شدہ نام) سری نگر کے ایک اور فری لانس صحافی ہیں، جن کے پاسپورٹ کی تجدید زیر التوا ہے کیونکہ 2019 سے پولیس کی تصدیق نہیں ہوئی۔
اپنے خاندان کے اس واحد کفیل نے بین الاقوامی اشاعتوں اور نشریاتی کمپنیوں کے ساتھ کام کیا ہے۔
جاوید نے کہا، ’میں اپنی ضروریات پوری نہیں کر پا رہا۔ میں پہلے ہی کولمبیا یونیورسٹی (امریکہ میں) سے گذشتہ سال اپنے کوویڈ19 کے متعلق کام کے لیے ایوارڈ حاصل نہیں کر سکا۔ اس کی وجہ سے مجھے بین الاقوامی ملازمت کی پیش کش چھوڑنی پڑی۔‘