کیا واقعی کشمیر کا سودا ہو گیا؟

عمران خان فیصلہ کر لیں کہ تاریخ کی کتابوں میں بہادر شہ سوار کی مانند یاد کیا جانا ہے یا بہادر شاہ ظفر کی غزلوں کے مرثیے کے طور پر۔

اب بھارت لائن آف کنٹرول کو مستقل سرحد بنوانے کی گھناؤنی سازش چلے گا( اے ایف پی)

یہ سوال ہر پاکستانی کے ذہن میں ہے۔ کیا واقعی کشمیر کا سودا ہو گیا؟ کیا واقعی کشمیر پاکستان کے ہاتھ سے نکل گیا؟

کچھ سر پھرے، جنونی بہادر تو منہ پھاڑے یہ دعویٰ کر رہے ہیں اور میرے جیسے بزدل، کبوتر کی طرح سہمے آفت کو دیکھ کر حقیقت سے آنکھیں چرا لینے والے دل ہی دل میں لاحول پڑھ کر خود کو اور سب کو ڈھارس دے رہے ہیں کہ نہیں، گھبرانا نہیں ہے۔ کشمیر اب بھی ہمارا ہے، سارے کا سارا ہے۔۔۔

پانچ اگست کی صبح بھارت کا یہ اعلان دھچکے سے کم نہیں تھا کہ وہ جموں و کشمیر کی ریاستی حیثیت ختم کر کے اسے دو ٹکڑے کر کے بھارت کا حصہ بنا رہا ہے۔ بھارت اس پر کام تو لمبے عرصے سے کر رہا تھا۔

2014 میں برسر اقتدار آتے ہی مودی سرکار نے واضح کر دیا تھا کہ وہ کشمیریوں اور پاکستان کو سبق سکھانے کے لیے جموں و کشمیر کی حیثیت تبدیل کر دے گی۔

آرٹیکل35A اور 370 کے خاتمے میں مودی، امت شاہ اور اجیت دوول کا کردار سب سے اہم ہے۔ اب تو خبروں میں آ چکا کہ بھارت نے اپنے اہم ترین دفاعی اور معاشی دوست ملک امریکہ کو یہ قدم اٹھانے سے ٹھیک چار دن پہلے اعتماد میں لے لیا تھا۔

اس کا سادہ سا مطلب یہ کہ چونکہ صدر ٹرمپ جانتے تھے کہ مودی کیا اقدام کرنے جا رہا ہے اسی لیے 22 جولائی کی ملاقات میں کشمیر پر وزیر اعظم عمران خان سے ان کی ثالثی کی پیشکش اس وقت کے پاکستانی موقف کے تناظر میں نہیں بلکہ مستقبل کے بھارتی موقف کے تناظر میں تھی۔

کیا صدر ٹرمپ کی ثالثی کی پیشکش ’کا مطلب کشمیر کا بٹوارہ تھا؟ کیا اس کا مطلب ’اِدھر ہم ادھر تم‘ یا ’جو ہمارا وہ ہمارا، جو تمہارا سو تمہارا‘ کا فارمولا تھا؟ کیا پاکستان اپنی معصومیت یا نااہلی میں بھارت اور امریکہ کی چال کے جال میں پھنس گیا؟

آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بعد امریکہ کی طرف سے اسے بھارت کا اندرونی معاملہ گرداننا پاکستان کے لیے انتہائی تشویش کی بات ہونی چاہیے۔ کہاں صدر ٹرمپ کشمیر پر ثالثی کی پیشکش کر رہے تھے اور کہاں امریکہ اب اسے بھارت کا داخلی معاملہ کہہ رہا ہے۔

کشمیر ہرگز بھارت کا داخلی معاملہ نہیں۔ کشمیر تاحال ایک متنازع مسئلہ ہے، جس پر سلامتی کونسل کی17 قراردادیں اور جنرل اسمبلی کی قرارداد موجود ہیں۔

پاک بھارت دو طرفہ معاہدے موجود ہیں جن میں سرفہرست شملہ معاہدہ ہے۔ جموں و کشمیر کی حیثیت ختم کر کے بھارت نے شملہ معاہدے کی کھلی خلاف ورزی کی ہے۔ کیا اب بھی پاکستان کو یک طرفہ طور پر سقوط ڈھاکہ میں 1972 شملہ معاہدے کا پابند اور پاسدار رہنا چاہیے؟

بھارت کی جانب سے 1971 میں سقوط ڈھاکہ پر بھیانک کردار ادا کرنے کے باوجود 1972 میں اندرا گاندھی نے شملہ معاہدہ پر دستخط کیوں کیے؟ اس سوال کا جواب بھارت کی آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہو گا۔ مودی سرکار نے ایک عظیم غلطی کی ہے۔ کشمیر اب ایک عالمی مسئلہ بن جائے گا، جس سے بھارت کو بہت کچھ کھونا پڑے گا۔

370آرٹیکل کے خاتمے سے بھارت کا لبرل، سیکیولر، جمہوری تشخص بری طرح مجروح ہوا ہے اور مزید بھی ہو گا۔ بھارت کے اپنے اندر اور جموں و کشمیر میں بھی جو چند آوازیں مودی سرکار کی حامی تھیں، وہ بھی بھارت کے اس غاصبانہ اقدام کےخلاف بول اٹھی ہیں۔

عالمی انسانی حقوق کی تنظیمیں بھارت کے جابرانہ اقدام کی مذمت کر رہی ہیں۔ عالمی میڈیا سوال اٹھا رہا ہے۔ بھارت کے اپنے میڈیا کا ایک حصہ مودی سرکار کے اقدام سے ناخوش ہے۔

مودی سرکار پر دباؤ بڑھے گا اور یہیں پاکستان کو اپنا سفارتی کردار جارحانہ انداز سے ادا کرنا ہو گا۔ انتہائی معذرت کے ساتھ، لیکن دفتر خارجہ اور وزیر خارجہ کا اس بحران میں کردار انتہائی مایوس کُن رہا۔ چار اور پانچ اگست کی درمیانی شب وزیر خارجہ کی سعودی عرب حج کے لیے روانگی نے بہت سے سوال کھڑے کر دیے کہ کیا پاکستان اس بھارتی اقدام سے لاعلم تھا یا شریکِ جرم تھا؟

میرا ذاتی خیال ہے پاکستان کو علم تو ضرور تھا لیکن دلِ خوش فہم کو اب تک مودی سے بھلائی کی امید تھی۔ ریاست پاکستان سے اندازے میں غلطی ہو گئی کہ مودی سرکار یہ انتہائی اقدام کر سکتی ہے۔ لیکن جب علم ہو گیا اس کے باوجود وزیر خارجہ کا سعودی عرب میں رہنا، پاکستان واپس نہ آنا اور پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے غیر حاضر رہنا، پالیسی بیان میں تاخیر ہونا یہ سب مجرمانہ غفلت ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

وزیر اعظم صاحب کو چاہیے کہ جناب شاہ محمود قریشی صاحب کو حاجی کا خطاب دے کر حج منسٹری ان کے حوالے کر دیں تاکہ وہ آرام سے ہر سال حج کر سکیں اور بھارت کے ہاتھوں قربانی کا بکرا بنے کشمیریوں کا مقدمہ لڑنے کے لیے کسی ایسی شخصیت کو ذمہ داری سونپیں جسے مسئلہ کشمیر کی حساسیت اور گھمبیرتا کا اندازہ ہو اور جو مودی کی ذہنیت اور شاطری کا مقابلہ کر سکے۔

شکوہ تو مجھے وزیر اعظم عمران خان سے بھی ہے کیونکہ وہ اپنی تقریر اور پالیسی بیان میں مسئلہ کشمیر کو صحیح طور پر اجاگر نہ کر سکےاور نہ ہی عوامی جذبات کی بھرپور ترجمانی کر پائے۔

عوام میں وزیر اعظم عمران خان کا تاثر ایک بہادر، نہ ڈرنے والا، نہ جھکنے والا، نہ بکنے والا، مضبوط اور فائٹر خان کا ہے، جس نے پلوامہ حملے کے ڈرامے کے بعد بھارتی جنگی جنون 19 فروری کو بھارت کو اسے زبان اور جارحیت کے آثار کا اندازہ لگاتے ہی میں جواب دیا تھا۔

اگرچہ تب بھی پاکستان نے بھارت پر حملہ تو نہیں کر دیا تھا لیکن الفاظ کی مضبوطی، ادائیگی کی سختی لیکن امن پسندی کی نرمی نے بھارت کو27 فروری کو دکھلا دیا تھا کہ ہم کیا کر سکتے ہیں۔

یہ سب وزیر اعظم عمران خان کی چھ اگست کی پالیسی تقریر میں غائب تھا۔ حیرت تو مجھے ان چند لوگوں پر بھی ہے جو کل تک بھارت اور مسئلہ کشمیر پر دوسروں کو مودی سرکار کا یار اور غدار قرار دیتے تھے، جو کل تک بھارت سے تجارت اور سرحدیں بند کرنے کے درس دیتے تھے، جو کل تک بھارت کو ناکوں چنے چبوانا چاہتے تھے، بھارت ماتا کی ماتا پتا ایک کر دینے کے درپے تھے، وہی آج تحمل ، بردباری، ہوش اور عقل مندی کے درس دیتے نظر آتے ہیں۔

یاد رہے بھارت نے کشمیر پر قبضہ کر لیا ہے۔ یاد رہے بھارت نے کشمیر ہڑپ کر لیا ہے۔ اب جموں و کشمیر کی جنگ کا پیرایہ بدل چکا ہے۔ اب حقیقت بدل چکی ہے۔ اب پاکستان کو بھی اپنی حکمت عملی بدلنی ہے۔

جنگ اور محبت میں سب کچھ جائز ہوتا ہے۔ کشمیر کے ساتھ تو دونوں معاملات ہیں۔ کشمیر کے لیے ہماری ازلی محبت بھی ہے اور اس کے لیے ہم جنگ بھی کر سکتے ہیں اور دکھا بھی چکے ہیں۔

تاہم اب بھارت نے کھیل کے اصول بدل دیے ہیں۔ اگر بھارت نے اصول یہ رکھا ہے کہ کوئی اصول نہیں تو پاکستان کو بھی چال بدلنی ہو گی۔ آخر ہم کس بات سے خوفزدہ ہیں کہ بھارت سے اپنے سفارتی تعلقات قطع نہ کر دیں، ہمیں دہلی سے اپنے ہائی کمشنر کو فوری واپس بلانا چاہیے اور بھارتی ہائی کمشنر کو فوری واپس بھیج دینا چاہیے۔ واہگہ بارڈر بند کر دینا چاہیے، جب تک بھارت آرٹیکل 370 کے خاتمے کا جابرانہ اقدام واپس نہ لے لے۔

اسے دوران عالمی سطح پر سفارت کاری کو موثر ترین بنانا ہے۔ بھارت پرعالمی دباؤ بڑھوانا ہے، جس میں چین، روس، اور سعودی عرب سے اہم مدد لی جا سکتی ہے۔

اب تک تو عالمی برادری کے ساتھ ہمارا رابطہ مایوس کن ہے۔ کشمیر دونوں ممالک کے درمیان بنیادی مسئلہ ہے۔ اب جبکہ بھارت نے جبراً اور غیر قانونی طور پر جموں و کشمیر کی حیثیت تبدیل کر دی ہے، اب بھارت کبھی بھی مذاکرات کی میز پر نہیں آئے گا۔

بھارت لائن آف کنٹرول کو مستقل سرحد بنوانے کی گھناونی سازش چلے گا، یہی بھارت اور اجیت دوول کا اگلا ٹاسک ہے۔ مودی سرکار پانچ اگست کو ہی اکھنڈ بھارت، مہا بھارت کے سپنے دیکھ رہی ہے۔

راجیہ سبھا میں بی جے پی رکن سبرامنیم سوامی کا یہ کہنا کہ بھارت اب آگے بڑھے اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر بھی حاصل کر لے، پاکستان کی آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہونا چاہیے۔

اس بیان کے اگلے ہی روز اسلام آباد کی سڑکوں پر اکھنڈ بھارت، مہا بھارت کے پوسٹرز کیسے لگ جاتے ہیں؟ ریاستِ پاکستان کو جاگنا ہو گا۔ بھارت نے کھیل شروع کر دیا ہے، اصول بدل دیے ہیں۔ ہمیں بھی چالیں بدلنی ہوں گی اور کھیل کا اختتام کرنا ہو گا۔

بھارت اس سے بھی آگے جائے گا۔ سنگھ پریوار کی ذہنیت کو عملی جامہ پہنانے نریندر مودی کسی بھی حد جا سکتا ہے۔ کشمیری بےبس ہیں، تڑپ رہے ہیں، سسک رہے ہیں، ان کی سانسیں پاکستان پکار رہی ہیں۔

معصوم بچے بلک رہے ہیں، خوفزدہ ہیں، کشمیر کی مائیں، بہنیں، بیٹیاں اپنی عزتوں کی رکھوالی کے لیے پاکستان کی مدد کی منتظر ہیں۔ کشمیر کے نوجوان آزادی کے لیے تڑپ رہے ہیں۔

بوڑھی سوکھی آنکھوں میں امید کی آخری کرن دیکھنے کی روشنی ابھی باقی ہے۔ پاکستان کو کشمیر سے کیا اپنا وعدہ نبھانا ہو گا۔ یہ کشمیر کی آخری جنگ ہو گی ہر محاذ پر۔

وزیر اعظم عمران خان سوچ لیں انہیں بہادر شاہ ظفر بننا ہے یا ٹیپو سلطان ۔۔۔؟ فیصلہ کر لیں کہ گیدڑ کی سو سالہ زندگی بہتر ہے یا شیر کی ایک دن کی؟  فیصلہ کر لیں کہ تاریخ کی کتابوں میں بہادر شہہ سوار کی مانند یاد کیا جانا ہے یا بہادر شاہ ظفر کی غزلوں کے مرثیے کے طور پر۔۔۔؟

قوم تیار ہے، افواج پاکستان نے کور کمانڈرز کانفرنس میں واضح پیغام دے دیا ہے، اب بس عمران خان کو کچھ بہادر فیصلے کرنے ہیں۔ جتنی جلدی کر لیں بہتر ہوں گے۔

__________________________

یہ تحریر مصنف کی ذاتی آرا پر مبنی ہے اور ادارے کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر