کوئٹہ: ترک شدہ اشیا سے بنے فن پاروں کی نمائش

اس فیسٹیول میں انسٹالیشنز کے ذریعے فائن آرٹ کے طالب علموں نے ایک خیال کے تحت اپنی چیزوں کو انسٹال کرکے نمائش کے لیے رکھا تھا۔

کوئٹہ میں یونیورسٹی آف بلوچستان کے شعبہ فائن آرٹس کے طلبہ و طالبات نے ایک آرٹ فیسٹول کا انعقاد کیا جس میں ترک ہوجانے والی پرانی اشیا کے ذریعے فن پارے بنائے گئے۔

13 مارچ کو شروع ہوکر 17 مارچ تک جاری رہنے والے اس فیسٹیول میں انسٹالیشنز کے ذریعے فائن آرٹ کے طالب علموں نے ایک خیال کے تحت اپنی چیزوں کو انسٹال کرکے نمائش کے لیے رکھا تھا۔

اس نمائش میں شریک فن کاروں نے پرانے لیٹربکس، آڈیو ٹیپ اور کیسٹس کے علاوہ شاعروں کے کام کو اجاگر کیا۔

ان ہی میں ایک فن کار نجیب بلوچ بھی شامل تھے جنہوں نے اپنے آباو اجداد کے زمانے میں گھروں میں موسیقی کی آواز سنانے والے آڈیوٹیپ اور کیسٹ کی یاد کو تازہ کیا۔

نجیب نے بتایا: ’اس سوچ کا مقصد یہ ہے کہ وہ چیزیں جو ختم ہوچکی ہیں، جیسے یہ آڈیو ٹیپ اور کیسٹ کا دور جو ہر گھر میں ملتا تھا، اب ختم ہو چکا ہے۔‘

انہوں نے بتایا: ’میں نے ان یادوں کو زندہ کرنے کے لیے آڈیو ٹیپ کو ایک پنجرے کے اندر رکھا ہے، جو ایک اندھیرے کمرے میں لٹک رہا ہے، جیسے ہی کوئی اندر داخل ہوتا ہے، تو بجلی کا سوئچ آن کرنے سے ٹیپ چلنا شروع ہو جاتا ہے، جس سے پرانے زمانے کی موسیقی گونجتی ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

نجیب کہتے ہیں کہ پنجرے میں ٹیپ و کیسٹ کو بند کرنے کا مقصد یہ ہے کہ وہ یادیں ایک پرندے کی مانند تھیں اور پنجرہ کھلتے ہی یہ سب اڑ گئے، یعنی یہ سب اب صرف یادیں ہیں، چیزیں قصہ پارینہ بن چکی ہیں، اس طرح ہم ان کو صرف یاد کرسکتے ہیں۔‘

ایک اندھیرے کمرے میں میز لگائے اور اس پر ایک پرانے زمانے کی گھڑی، کچھ کتابیں رکھے ایک شخص بیٹا ہے، جو ایک کاغذ پر کچھ لکھتا ہے، پھر اس کاغذ کو پھاڑ کر نیچے پھینک دیتا ہے، لیکن اصل میں اس کاغذ پر کچھ بھی لکھا ہوا نہیں ہوتا۔

یہ قاسم علی بگٹی ہیں جنہوں نے اپنی تھیم کا نام گمنام ہستیوں کے حوالے سے رکھا ہے۔ انہوں نے بتایا اس آرٹ کا مقصد گمنام ہستیوں کو یاد کرنا اور ان کے کام کو اجاگر کرنے کی کوشش ہے۔

قاسم علی نے بتایا: ’یہ سب کچھ میں نے اپنے والد کے کام کو دیکھ کر بنایا، جنہوں نے بلوچی زبان میں نظمیں لکھی ہیں، جس میں ایک نظم تقریباً 150 مصرعوں پرمشتمل ہے، لیکن اتنے بڑے شاعر کا بیٹا ہونے کے باوجود مجھے ان کا تعارف کروانا پڑتا ہے۔‘

قاسم کے بقول: ’جو میں کاغذ پرکچھ لکھ رہا ہوں، یہ میں اپنے والد کی کہی باتیں لکھ رہا ہوں، اس کا مطلب یہ ہے کہ میں لکھ رہا ہوں کام کررہا ہوں لیکن یہ لوگوں کو نظر نہیں آرہا ہے، کاغذ پر کچھ بھی نہیں لکھا ہے اور میں بعد میں اس کو پھاڑ کر دوسرا لکھنے بیٹھ جاتا ہوں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی آرٹ