ڈرامے ویسے ہی بنتے ہیں جیسے عوام پسند کرتے ہیں: حنا الطاف

پاکستانی ڈراموں میں خواتین کو مخصوص کرداروں میں دکھائے جانے کے حوالے سے حنا الطاف کہتی ہیں کہ ’اس کا انحصار عوام پر ہے، جس دن عوام نے ایسے ڈرامے دیکھنے چھوڑ دیے، ان ڈراموں کو اشتہارات ملنے بند ہوجائیں گے اور پھر پروڈیوسرز ایسے ڈرامے بنانے بند کردیں گے۔

حنا الطاف کا شمار پاکستان کی ان چند اداکاراؤں میں ہوتا ہے جو میزبانی اور اداکاری میں اپنی الگ پہچان رکھتی ہیں۔

ان دنوں حنا الطاف، کراچی میں ایک ڈراما سیریل ’ہاسٹل لائف‘ کی عکس بندی میں مصروف ہیں۔ اس ڈرامے میں وہ ہاسٹل میں پڑھنے والی ایک لڑکی کا کردار ادا کر رہی ہیں، جو ڈاکٹر بننا چاہتی ہے۔

ڈرامے کے سیٹ پر ہی چہرے پر اپنی مخصوص مسکان سجائے حنا الطاف نے میزبانی اور ادارکاری کے بارے میں انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ انہیں دونوں کام پسند ہیں اور وہ باری باری یہ دونوں کام کرتی رہتی ہیں۔

حنا کا کہنا تھا: ’میزبانی اور اداکاری میں ایک فرق تو ذمہ داری کا ہے کیونکہ بطور میزبان ذمہ داری کافی زیادہ ہوتی ہے، لیکن وہاں کام کرنے کا دورانیہ کم ہوتا ہے۔ پانچ سے چھ گھنٹے میں دو سے تین شو ریکارڈ ہو جاتے ہیں، مگر اداکاری میں روزانہ 12 گھنٹے کئی ماہ تک مسلسل کام کرنا ہوتا ہے۔‘

ہاسٹل لائف میں اپنے کردار کے بارے میں حنا کا کہنا تھا کہ یہ ان کا اس سال کا پہلا ڈراما ہے اور اس میں وہ ایک ایسی لڑکی کا کردار ادا کر رہی ہیں، جو حیدرآباد سے تعلیم کے لیے کراچی آئی ہوئی، جس کا تعلق ایک دقیانوسی گھرانے سے ہے اور جو زندگی میں کچھ کرنا چاہتی ہے۔

’یہ ڈراما ہاسٹل کی زندگی، مسائل اور اس دوران پیدا ہونے والی دوستی کے رشتوں پر مبنی ہے۔‘

پاکستانی ڈرامے میں عورت کے کردار کو جس طرح دکھایا جاتا ہے، اس پر ہونے والے اعتراضات کے بارے میں حنا الطاف کا کہنا تھا کہ ’اس کا انحصار عوام پر ہے، جس دن عوام نے ایسے ڈرامے دیکھنے چھوڑ دیے، ان ڈراموں کو اشتہارات ملنے بند ہوجائیں گے اور پھر پروڈیوسرز بھی ایسے ڈرامے بنانے بند کردیں گے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ان ڈراموں کو دیکھنے والے موجود ہیں، بڑی تعداد میں موجود ہیں، اس لیے یہ صرف ریٹنگ میٹرز پر منحصر نہیں ہوتے۔

پاکستان میں خواتین اداکاراؤں کو مرد اداکاروں سے کم معاوضہ ملنے کے سوال پر حنا الطاف نے کہا کہ ان کی معلومات کے مطابق پاکستان کی شوبز صنعت میں خواتین بہت خودمختار ہیں اور انہیں ان کے کام کے بڑے بڑے معاوضے ملے ہیں اور انہوں نے بہت سے مرد اداکاروں کی نسبت بہترین معاوضے پر کام کیا ہے۔

فلم نہ کرنے کی وجہ انہوں نے یہ بتائی کہ وہ ڈراما انڈسٹری میں خوش ہیں، کوئی بہت اچھا کردار آگیا تو دیکھیں گی لیکن یہ ان کی ترجیحات میں شامل بالکل نہیں ہے۔

حنا الطاف نے کہا کہ انہیں گھر کی چائے اور آرام اتنا پسند ہے کہ انہیں فلموں میں روایتی ہیروئن والے کام ’جیسے برف پوش پہاڑوں پر ساڑھی پہن کر ناچنے‘ کا شوق نہیں ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے کہا کہ اگر وہ فلموں میں کام کریں گی تو وہ اپنے شوہر آغا علی کے ساتھ ہی کام کرنے کو ترجیح دیں گی ورنہ شاید فلم نہ ہو۔ ’البتہ کوئی بہت ہی کمال کی کہانی ہوئی تو دیکھا جائے گا۔‘

حنا الطاف اور آغا علی کی شادی کرونا وبا کے دوران مئی 2020 میں ہوئی تھی۔ اس حوالے سے ان کا کہنا تھا: ’سب نے بہت خلوص اور محبت کے پیغام بھیجے البتہ چونکہ اس وقت فلائٹس بند تھیں تو کچھ رشتے داروں کے آنے کا مسئلہ ہوگیا تھا۔‘

سوشل میڈیا پر ٹرولنگ کے بارے میں حنا الطاف کہتی ہیں کہ ’اس سے فرق تو پڑتا ہے لیکن وقت کے ساتھ کچھ چیزیں سمجھ میں آ جاتی ہیں اور انسان اسے اگنور کر دیتا ہے۔‘

حنا کا کہنا تھا کہ ’پاکستان میں سائبر کرائم کے قوانین ہیں، ادارے موجود ہیں مگر لوگوں کو معلوم نہیں ہے، وہاں جاکر اپنا مسئلہ بتانا چاہیے، کیونکہ اس طرح آن لائن تضحیک سے انسان کی ذہنی صحت متاثر ہوتی ہے۔‘

برطانوی جریدے ایسٹرن آئی نے 2019 میں ایشیا کی پرکشش ترین خواتین کی فہرست میں حنا الطاف کو شامل کیا تھا۔

جب اس بارے میں ان سے استفسار کیا تو انہوں نے حیران ہو کر پوچھا کہ ’کیا واقعی، مجھے تو معلوم نہیں۔ میں شاید اس زمانے میں کسی اور زون میں تھی۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ٹی وی