کیا افغان طالبان ٹی ٹی پی کو روک سکیں گے؟

افغان طالبان پاکستان کے تحفظات دور کرنے کے لیے کچھ روایتی اقدامات تو کریں گے، لیکن طالبان اور پاکستان کی سفارتی بات چیت سے کوئی ٹھوس نتائج سامنے آنے کا امکان نہیں۔

وزیر دفاع خواجہ آصف کی سربراہی میں پاکستانی وفد نے 22 فروری 2023 کو افغان قیادت سے ملاقات کی (تصویر FDPM_AFG@/ ٹوئٹر)

22  فروری 2023 کو پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ محمد آصف اور انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے ڈائریکٹر جنرل لیفٹیننٹ جنرل نوید انجم سمیت ایک اعلیٰ فیصلہ ساز پاکستانی وفد نے موجودہ سکیورٹی چیلنجز اور خطرات سے نمٹنے کے لیے کابل کا دورہ کیا۔

پاکستانی وفد نے افغانستان کے نائب وزیراعظم ملا عبدالغنی برادر، وزیر داخلہ سراج الدین حقانی اور وزیر دفاع ملا محمد یعقوب سے پاکستان میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے بڑھتے ہوئے حملوں کے پیش نظر ملاقات کی۔

ماضی کے برعکس پاکستانی وفد نے افغانستان کا دورہ فوجی کی بجائے خواجہ آصف کی سربراہی میں سیاسی قیادت میں کیا، جس کا اولین مقصد ٹی ٹی پی کو پاکستان میں ’سپرنگ اوفنسیو‘ کی کارروائی شروع کرنے سے روکنا تھا۔

کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے افغان طالبان کی طرز پر مئی 2022 میں ’البدر‘ کے نام سے پاکستان میں ’سپرنگ اوفنسیو‘ کی کارروائی شروع کی تھی، تاہم جون کی جنگ بندی کے بعد ان کارروائیوں میں کمی دیکھنے میں آئی ہیں۔

پاکستانی حکام کو خدشہ ہے کہ ٹی ٹی پی پاکستان میں اپنی عسکری مہم کو مزید تیز کرنے کے لیے سپرنگ اوفنسیو کے سسلسلے میں حملوں کا اعلان کر سکتی ہے۔

افغانستان اور پاکستان کے علاقے میں شورشوں اور غیر متناسب تنازعات کے تناظر میں سپرنگ اوفنسیو کی کارروائیاں روایتی لڑائیوں کے آثار کو واضح کرتی ہیں۔

دوسرا، پاکستان نے ٹی ٹی پی کے کمانڈروں اور جنگجوؤں کی افغانستان میں مسلسل موجودگی اور پاکستان میں جاری عسکریت پسندانہ مہم میں ان کی شمولیت کے ناقابل تردید شواہد افغان حکام کے سامنے پیش کیے۔

طالبان کی عبوری حکومت سرکاری طور پر افغان سرزمین پر ٹی ٹی پی کی موجودگی سے انکار کرتی رہی ہے۔

ان کا دعویٰ ہے کہ یہ گروپ پاکستان سے چل رہا ہے اور 2021 اور 2022 میں اس کے رہنماؤں نے امن مذاکرات میں شرکت کرنے کے لیے پاکستان کے علاقوں سے افغانستان کا سفر کیا تھا۔

پاکستانی فریق نے پاکستان میں حملے کرنے والے افغان نژاد سات خود کش بمباروں کے ٹھکانے اور ڈی این اے رپورٹس سمیت تمام دیگر تفصیلات فراہم کیں اور تاثر دیا کہ ٹی ٹی پی نہ صرف افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال کر رہی ہے بلکہ وہ افغان شہریوں کو ملک میں دہشت گردی کی کارروائیوں کے لیے بھرتی کر رہی ہے۔

آخر میں، پاکستانی وفد نے ٹی ٹی پی کو غیر مسلح کرنے اور پاکستان کے قریب افغان سرحدی علاقوں سے منتقل کرنے کا مطالبہ کیا۔

ماضی بعید میں پاکستان افغان حکام سے درخواست کرتا رہا ہے کہ وہ ٹی ٹی پی کی قیادت کے خلاف کارروائی کریں یا دوحہ معاہدے کے تحت عسکریت پسندوں کے لیے افغان سرزمین کے استعمال کو روکیں۔

یہ معاہدہ بین الاقوامی برادری کے ساتھ اس وعدوں کا امتحان ہوگا اور اس کے بین الاقوامی ساخت کو متاثر کرے گا۔

ستم ظریفی یہ ہے کہ پاکستان نے طالبان کی حمایت اور افغانستان میں انڈین اثرورسوخ کو قابو کرنے اور ٹی ٹی پی کو روکنے کے لیے طالبان کو اقتدار دلانے میں مبینہ سہولت فراہم کی تھی۔

باوجود اس کے کہ دونوں گروہوں کی نسلی، سیاسی، نظریاتی اور میدان جنگ میں دیرانیہ وابستگیاں ہیں۔

ان تین مطالبات کے ساتھ پاکستان نے طالبان کو غیرمعمولی حالات میں انتہائی قدم اٹھانے سمیت افغانستان کے اندر ٹی ٹی پی کے خلاف اقدامات نہ کرنے پر وہاں موجود ٹی ٹی پی کے ٹھکانوں کے خلاف کارروائیوں کا بھی اشارہ دیا۔

اس دورے کا ایک اور حیران کن پہلو یہ تھا کہ ماضی میں سابق ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید نے سراج الدین حقانی کے ساتھ اپنے ذاتی روابط کو استعمال کرتے ہوئے ٹی ٹی پی سے بات کی تھی۔

تاہم اس دفعہ ریاستی سطح پر پاکستانی طالبان سے مذاکرات ہو رہے ہیں۔ البتہ پاکستان اب ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کی کوشش کرنے کی بجائے، جو کہ ماضی میں دو بار ناکام ہو چکے ہیں، اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے افغان طالبان سے مطالبہ کر رہا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

افغان طالبان کی طرف سے کیے گئے مطالبات میں ان کی خودمختاری کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مبینہ طور پر پاکستان کی فضائی حدود سے نگرانی اور جاسوسی کے لیے افغانستان میں داخل ہونے والے امریکی ڈرونز کا معاملہ شامل تھا۔

افغان حکام نے باربار سرحد کی بندش اور کاروبار میں خلل کا مسئلہ بھی اٹھایا اور اس بات پر زور دیا کہ باہمی چیلنجز اور پریشانیوں سے قطع نظر اقتصادی سرگرمیاں اور سرحد پار لوگوں کی نقل و حرکت جاری رہنی چاہیے۔

ٹی ٹی پی سے متعلق پاکستانی مطالبات کے جواب میں طالبان نے انہیں پاکستان کے ساتھ ملحق افغان سرحدی علاقوں سے منتقل کرنے کا منصوبہ پیش کیا ہے، بشرط مؤخر الذکر مالی اخراجات پاکستان برداشت کرے۔

طالبان کا مجوزہ منصوبہ وہی ٹیمپلیٹ ہے جو انہوں نے ترکستان اسلامک پارٹی کے بارے میں چین کو پیش کیا تھا کہ وہ اپنے جنگجوؤں کو چینی سرحد کے قریب شمالی صوبہ بدخشاں سے افغانستان کے وسطی حصوں میں منتقل کرے۔

یہ دیکھنا باقی ہے کہ پاکستان افغان طالبان کی پیشکش کا کیا جواب دیتا ہے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ پاکستان افغان طالبان کی جانب سے افغانستان میں ٹی ٹی پی کی سرگرمیوں کو روکنے کے منصوبے کے بارے میں دی گئی بریفنگ سے مطمئن نہیں تھا۔

وزیر داخلہ کے مطابق طالبان کا ایک وفد جلد ہی پاکستان کا دورہ کرے گا تاکہ تجاویز پر پیش رفت کی جا سکے۔

آنے والے دنوں میں ٹی ٹی پی کی جانب سے سپرنگ افنسیو کا اعلان یا اس میں کمی اس بات کا تعین کرنے کے لیے اہم اشارے ہوں گے کہ آیا یہ دورہ کامیاب رہا یا نہیں۔

یہاں قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ افغان طالبان ٹی ٹی پی کو تنہا کرنے کے متحمل نہیں ہوسکتا۔

ٹی ٹی پی کے خلاف طالبان کی کسی بھی کارروائی سے شدت پسند برادری میں ان کے موقف کو نقصان پہنچے گا، جس سے ان کے نظریاتی دشمن اور مخالفین کو پراپیگنڈا کرنے کا جواز مل جائے گا۔

مزید برآں، اگر طالبان ٹی ٹی پی کو اپنے موجودہ مقامات سے ہٹا دیتے ہیں تو تحریک کے اندر موجود طالبان کے حامی دھڑے ایسے فیصلے کی مزاحمت کر سکتے ہیں۔

اسی طرح افغان طالبان کو علم ہے کہ اگر وہ ٹی ٹی پی کو ایک خاص نقطے سے آگے بڑھاتے ہیں تو اس کے دھڑے آئی ایس کے پی (داعش خراسان) کی طرف بڑھ سکتے ہیں، جس کا وہ متحمل نہیں ہو سکتے۔

لہٰذا، افغان طالبان پاکستان کے تحفظات کو دور کرنے کے لیے تو کچھ روایتی اقدامات کرے گا لیکن طالبان اور پاکستان کی سفارتی بات چیت سے کوئی ٹھوس نتائج سامنے آنے کا امکان نہیں۔

نوٹ: یہ کالم مصنف کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ