برطانوی فوج پر افغانوں کے ماورائے عدالت قتل کے الزامات کی تحقیقات شروع

سینیئر جج چارلس ہیڈن کیف کی سربراہی میں ہونے والی تحقیقات میں اس بات کا جائزہ لیا جائے گا کہ کیا 2010 سے 2013 کے دوران برطانوی فوجی اہلکاروں نے افغانستان میں ’جان بوجھ کر حراستی کارروائیوں‘ کے دوران ماورائے عدالت قتل کیے۔

30 اپریل 2002 کی اس تصویر میں افغانستان کے علاقے خوست میں برطانوی فوج کا قافلہ فارورڈ آپریشن بیس کی جانب رواں دواں ہے (اے ایف پی)

برطانوی سپیشل فورسز کے ارکان کی جانب سے افغانستان میں چھاپوں کے دوران ماورائے عدالت کیے گئے درجنوں قتل کے الزامات کی تحقیقات لندن میں شروع ہوگئی ہیں۔

گذشتہ سال بی بی سی ٹی وی کی ایک دستاویزی فلم میں بتایا گیا تھا کہ ایلیٹ سپیشل ایئر سروس (ایس اے ایس) کے فوجیوں نے مشکوک حالات میں 54 افراد کو قتل کیا، جس کے بعد برطانیہ کی وزارت دفاع نے تحقیقات کا حکم دیا ہے۔

خبررساں ادارے روئٹرز کے مطابق تحقیقات کا آغاز ایک ایسے وقت میں ہوا  ہے جب ایلیٹ سپیشل ایئر سروس پر 2011 اور 2012 میں اپنے رشتہ داروں کو قتل کرنے کا الزام لگانے والے دو خاندان اپنے مقدمات کے عدالتی جائزے کا مطالبہ کرنے کے لیے قانونی کارروائی شروع کر چکے تھے۔

سینیئر جج چارلس ہیڈن کیف کی سربراہی میں ہونے والی تحقیقات میں اس بات کا جائزہ لیا جائے گا کہ کیا 2010 کے وسط سے 2013 کے وسط تک برطانوی فوجی اہلکاروں نے ’جان بوجھ کر حراستی کارروائیوں‘ کے دوران غیر قانونی کام کیے تھے اور کیا ماورائے عدالت قتل کی مصدقہ اطلاعات موجود ہیں۔

تحقیقات میں اس بات کا بھی جائزہ لیا جائے گا کہ آیا رائل ملٹری کی جانب سے تحقیقات مناسب طریقے سے کی گئیں اور کیا کسی غیر قانونی قتل پر پردہ ڈالا گیا۔

جونیئر وزیر دفاع اینڈریو موریسن نے دسمبر میں تحقیقات کا اعلان کرتے ہوئے پارلیمنٹ کو بتایا تھا کہ ’برطانیہ کی مسلح افواج اپنے اعلیٰ ترین ممکنہ آپریشنل معیارات قائم رکھتی ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ کارروائیاں قانون کی واضح حدود میں ہونی چاہییں اور ہماری افواج کے خلاف قابل اعتماد الزامات کی ہمیشہ مکمل تحقیقات ہونی چاہییں۔

برطانوی ملٹری پولیس اس سے قبل بھی افغانستان میں فورسز کی جانب سے غیرمناسب رویے کے الزامات کی متعدد تحقیقات کرچکی ہے جن میں ایلیٹ سپیشل ایئر سروس کے خلاف لگائے گئے الزامات بھی شامل ہیں، تاہم وزارت دفاع کا کہنا ہے کہ کسی بھی تحقیقات میں قانونی چارہ جوئی کے لیے کافی ثبوت نہیں ملے۔

مشکوک قتل کا مخصوص انداز: بی بی سی کی تحقیقاتی رپورٹ

بی بی سی نے اپنی تحقیقاتی رپورٹ میں کہا تھا کہ برطانوی فوج کے خصوصی دستے سپیشل ایئر سروس کے اہلکاروں نے افغانستان میں  تعیناتی کے دوران کئی بار مشکوک حالات میں غیر قانونی طور پر 54 قیدیوں اور غیر مسلح افراد کو قتل کیا۔

2010 اور 2011 کے دوران ایس اے ایس سکواڈرن کے ساتھ خدمات انجام دینے والے افراد کے مطابق انہوں نے دیکھا کہ ایس اے ایس کے اہلکاروں نے رات کے وقت مارے گئے چھاپوں میں غیر مسلح افراد کو قتل کیا۔ ان افراد نے اہلکاروں کو ’ہتھیار رکھ دو‘ کا نام نہاد ہتھکنڈا استعمال کرتے دیکھا جس کے تحت غیر مسلح شخص کے قتل کا جواز پیش کرنے کے لیے جائے وقوعہ پر اے کے47 رائفلیں پھینکی گئیں۔

بی بی سی کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ 29 نومبر 2010 کو سکواڈرن نے ایک ایسے شخص کو قتل کیا جنہیں کو حراست میں لیا گیا تھا۔ انہیں ایک عمارت کے اندر واپس لے جایا گیا جہاں انہوں نے ’دستی بم سے فورس پر حملہ کرنے کی کوشش کی۔‘

15 جنوری 2011 کو سکواڈرن نے ایک شخص کو قتل کیا جنہیں حراست میں لے لیا گیا تھا۔ انہیں ایک عمارت کے اندر واپس لے جایا گیا تھا، جہاں انہوں ’ایک گدے کے پیچھے جا کر دستی بم نکالا اور اسے پھینکنے کی کوشش کی۔‘

سات فروری کو سکواڈرن نے ایک قیدی کو قتل کر دیا جس کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے ’گشت کرنے والوں اہلکاروں کو رائفل سے الجھانے کی کوشش کی تھی۔‘ یہی جواز نو فروری اور 13 فروری کو قیدیوں کی جان لیوا فائرنگ کا بھی دیا گیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

16 فروری کو سکواڈرن نے دو قیدیوں کو اس وقت قتل کر دیا جب ایک نے ’پردے کے پیچھے سے‘ دستی بم پھینکا اور دوسرے نے ’ایک میز کے پیچھے سے اے کے 47 اٹھائی۔‘

یکم اپریل کو سکواڈرن نے دو قیدیوں کو قتل کر دیا، جنہیں عمارت کے اندر واپس بھیج دیا گیا تھا۔ ان میں سے ایک نے ’اے کے 47‘ رائفل اٹھانے اور دوسرے نے ’دستی بم پھینکنے کی کوشش‘ کی تھی۔

برطانیہ کی سپیشل فورسز کے ہیڈ کوارٹر میں کام کرنے والے ایک سینیئر افسر نے نشریاتی ادارے کو بتایا: ’رات کے چھاپوں میں بہت سے لوگ مارے جا رہے تھے اور وضاحتیں سمجھ سے بالاتر تھیں۔‘

برطانوی نشریاتی ادارے نے 11-2010 میں ایسے گھروں کا دورہ کیا جہاں ایس اے ایس سکواڈرن نے چھاپے مارے تھے۔ ہلمند کے رہائشی ناد علی نے اپنے چھوٹے سے گاؤں میں مہمان خانہ بنا رکھا تھا جہاں سات فروری 2011 کو علی الصبح ایک نوجوان سمیت نو افغانوں کو قتل کردیا گیا تھا۔

ایس اے ایس کے اہلکار رات کے اندھیرے میں ہیلی کاپٹروں میں وہاں پہنچے اور قریبی کھیت سے گزرتے ہوئے گھر کے قریب چلے گئے۔ اہلکاروں کے بیان کے مطابق باغیوں نے ان پر فائرنگ کی جس کے نتیجے میں انہوں نے جوابی فائرنگ کی اور مہمان خانے میں موجود ہر شخص کو قتل کر دیا۔

2014 میں برطانوی رائل ملٹری پولیس آپریشن نارتھ مور کا آغاز کیا جو افغانستان میں برطانوی فورسز کے چھ سو سے زیادہ مبینہ جرائم کی وسیع پیمانے پر تحقیقات ہے جس میں ایس اے ایس سکواڈرن کے ہاتھوں متعدد قتل بھی شامل ہیں۔ لیکن آر ایم پی کے تفتیش کاروں کے بقول ثبوت اکٹھا کرنے کی کوششوں میں برطانوی فوج نے رکاوٹ ڈالی۔ آپریشن نارتھ مور 2018 میں ختم کردیا گیا تھا اور بالآخر2019 میں بند کردیا گیا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا