پشاور: سوشل میڈیا پر توہین آمیز مواد کی تشہیر پر سزائے موت

پشاور کی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے سوشل میڈیا پر توہین آمیز مواد کی تشہیر کے مقدمے میں نامزد مجرم کو سزائے موت اور 23 سال قید کی سزا سنا دی۔

پانچ مارچ 2022 کی اس تصویر میں پشاور پولیس کا ایک اہلکار ڈیوٹی کے دوران تعینات دیکھا جا سکتا ہے(اے ایف پی)

خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور کی انسداد دہشت گردی کے عدالت نے سوشل میڈیا پر توہین آمیز مواد کی تشہیر کے مقدمے میں نامزد مجرم سید ذیشان کو سزائے موت اور 23 سال قید کی سزا سنا دی۔

سید محمد ذیشان نامی مجرم پر سماجی رابطے کے ویب سائٹس پر گستاخانہ مواد کی تشہیر کا مقدمہ تلہ گنگ سے تعلق رکھنے والے ایک شہری کی درخواست پر 29  اکتوبر 2021 کو درج کیا گیا تھا۔

 اسی مقدمے میں آج  الزامات ثابت ہونے کے بعد مجرم کو سزا سنائی گئی۔

انسداد دہشت گردی کی عدالت کے فیصلے کے مطابق ملزم سید ذیشان پر پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 295 اے، سی اور 298 اے  اور اینٹی ٹیرر ازم ایکٹ کی دفعہ سات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا جبکہ مقدمے میں سائبر کرائم ایکٹ کے تحت دفعات بھی شامل کی گئی تھیں۔

عدالتی فیصلے کے مطابق اس مقدمے کا فیصلہ 26 فروری کو محفوظ کیا گیا تھا۔

 فیصلے کے مطابق مجرم پر 295 اے کا الزام ثابت ہونے پر 10 سال قید بامشقت اور دو لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی گئی۔

 اسی طرح 295 سی(توہین رسالت جرم) کے الزام میں مجرم کو سزائے موت اور تین لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی گئی ہے۔

جبکہ 298 اے(کسی بھی شخص کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے) کا الزام ثابت ہونے پر تین سال قید کی سزا اور ایک لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی گئی ہے۔

 مجرم کے خلاف انسداد دہشت گردی ایکٹ کی دفعات بھی مقدمے میں شامل کی گئی تھیں اور الزام ثابت ہونے پر سید ذیشان کو پانچ سال قید بامشقت اور دو لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی گئی۔

عدالتی فیصلے کے مطابق مجرم کو سائبر کرائم ایکٹ کی دفعہ 20 کے تحت الزامات ثابت پر تین سال قید بامشقت اور دو لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی گئی ہے جبکہ سائبر کرائم ایکٹ ہی کی دفعہ 22 کے تحت مزید تین سال قید اور دو لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی گئی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

درخواست گزار کے وکیل ابرار حسین نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’میرے موکل نے ملزم پر جو الزامات لگائے تھے، وہ سب دوران ٹرائل عدالت میں ثابت ہو گئے اور عدالت کی جانب سے آج ان کو مختلف سزائیں سنائی گئی ہیں جن میں سزائے موت بھی شامل ہے۔‘

ابرار حسین نے بتایا کہ ’سزا یافتہ مجرم کے قبضے سے وہ موبائل بھی برامد کیا گیا جس کے ذریعے وہ وٹس ایپ سمیت مختلف سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر گستاخانہ مواد کی تشہیر کرتے تھے اور یوں عدالت میں ان پر تمام الزامات ثابت ہو گئے۔‘

ابرار حسین سے جب پوچھا گیا کہ اس مقدمے میں دہشت گردی کی دفعات بھی شامل کی گئی تھیں، تو اس سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ’مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے اور اس قسم کی حرکت سے امن عامہ کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہوتا ہے، اسی وجہ سے ان دفعات کو بھی مقدمے میں شامل گیا تھا۔‘

اس مقدمے میں درج کی گئی ایف ائی ار(جس کی کاپی انڈپیندنٹ اردو کے پاس موجود ہے) کے مطابق ملزم کے خلاف 2020 میں فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی اسلام آباد میں شکایت درج کی گئی تھی۔ شکایت کے ساتھ وٹس ایپ گروپس کی چیٹ ٹمبلر کی چیٹ کے کاپیاں بھی لف کی گئی تھیں جن میں نامزد ملزم کی جانب سے گستاخانہ مواد پوسٹ کیا گیا تھا۔‘

مقدمے کے مطابق ملزم پر ایف آئی کے تحقیقات میں الزامات ثابت ہونے کے بعد انسداد دہشت گردی کی عدالت میں مقدمہ درج کیا گیا اور کیس کی سماعت شروع کی گئی اور اسی مقدمے میں آج ملزم پر الزامات ثابت ہونے کے بعد سزا سنا دی گئی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان