توہین مذہب کے ملزم کی رہائی کے لیے سوشل میڈیا پر مہم

نومبر میں توہین مذہب کے الزام میں گرفتار تھر سے تعلق رکھنے والے نوجوان کی رہائی کے لیے منگل کو سوشل میڈیا پر مہم شروع ہوئی تھی۔

ایک شہری کی شکایت پر مٹھی پولیس نے 22 نومبر کو لوَ کمار کے خلاف توہین مذہب کا مقدمہ درج کرتے ہوئے انہیں گرفتار کر لیا تھا (تصویر: لو کمار فیس بک)

صوبہ سندھ میں صحرائے تھر کے مرکزی شہر مٹھی سے تعلق رکھنے والے نوجوان کی فیس بک پوسٹ پر توہین مذہب کا مقدمہ درج ہونے اور گرفتاری کے ایک مہینے کے بعد سوشل میڈیا پر اس کی رہائی کے مطالبہ کیا جا رہا ہے۔

سماجی رابطوں کی ویب سائیٹ فیس بک پر منگل سے صارفین نوجوان لور کمار کی فیس بک پوسٹ کو دوبارہ شیئر کرکے ان کے خلاف دائر توہین مذہب کے مقدمے کو غلط قرار دیتے ہوئے ان کی رہائی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

ایک شہری کی شکایت پر مٹھی پولیس نے 22 نومبر کو لوَ کمار کے خلاف توہین مذہب کا مقدمہ درج کرتے ہوئے انہیں گرفتار کر لیا تھا۔

تاہم ایک مہینے کی مکمل خاموشی کے بعد منگل کی شام اچانک سوشل میڈیا پر لوَ کمار کی رہائی کے لیے احتجاج شروع ہوا۔

لوَ کمار کی رہائی کے لیے سوشل میڈیا پر احتجاج کا سلسلہ سندھی ادیب اور دانشور جامی چانڈیو کی ایک پوسٹ سے شروع ہوا، جس میں انہوں نے ملزم کی تصویر اور ایف آئی آر کی کاپی شیئر کی۔

تھر سے تعلق رکھنے والے شاعر اور لکھاری خلیل کنبھر نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ انہوں نے پہلے ہی روز لوَ کمار کی گرفتاری پر احتجاج کیا تھا، تاہم اس کا کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا۔

’جامی چانڈیو نے نوجوان کی تصویر اور ایف آئی آر کی کاپی شیئر کرتے ہوئے کیس ختم کرنے کا مطالبہ کیا تو یہ پوسٹ وائرل ہوگئی۔‘

جامی چانڈیو نے اپنی فیس بک پوسٹ میں لکھا: ’نوجوان لو کمار نے چھوٹے بچوں کے والد کی موت پر ایک شکایات پوسٹ کی تھی، جس کو بنیاد بنا کر مقدمہ کیا گیا۔‘

روز روز ایسے مقدمے دائر کرکے دھرتی کے مالکان ہندوؤں کو بے دخل کرنے کا سلسلہ بند کیا جائے میں آئی جی سندھ غلام نبی میمن سے مطالبہ کرتا ہوں کہ غلط اور ڈرانے والی آیف آئی آر واپس لے کر نوجوان کو آزاد کیا جائے۔ یہ کیس دائر کرانے والے فرد پر ہراسمنٹ کا کیس کیا جائے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

خلیل کنبھر کا کہنا تھا کہ سندھ اور خصوصاً تھر میں ہندو اور مسلمان بھائیوں کی طرح رہتے ہیں۔

’یہ نفرت پھیلانے کی بات ہے اور یہ مقدمہ بھی تھر کی جگ میں مشہور مذہبی رواداری کو نقصان پہنچانے کی ایک کوشش ہے۔ اس لیے یہ مقدمہ ختم کرکے نوجوان کو رہا کیا جائے۔‘

معروف سماجی رہنما اور سماجی تنظیم سندھ ہاری پورہیت کونسل کے صدر پنہل ساریو نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ انہیں اس کیس کے متعلق سوشل میڈیا سے ہی معلوم ہوا تو انہوں نے بھی اس پر پوسٹ کرکے اپنا احتجاج رکارڈ کرایا۔  

پنہل ساریو کے مطابق: ’جس فیس بک پوسٹ پر مقدمہ دائر کیا گیا ہے۔ وہ پوسٹ بھی میں میں نے پڑھی ہے۔ اس میں مذہب کی توہین کا کوئی معاملہ ہی نہیں ہے۔ اس لیے ہم سمجھتے ہیں کہ یہ مقدمہ ختم ہونا چاہیے۔‘

تھر کے سماجی رہنما محمد علی نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے ایک مہینے کی تاخیر کے بعد اس معاملے پر احتجاج کی وجہ بتاتے ہوئے کہا: ’جیسے یہ مقدمہ دائر ہوا تو مقامی اثر رسوخ والے افراد نے فرقین میں صلح کرانے اور مقدمہ ختم کرانے کا وعدہ کیا۔ اس لیے کسی نے اس معاملے کو سوشل میڈیا پر نہیں اچھالا۔ مگر ایک مہینے گزرنے کے بعد مقدمہ ختم نہیں ہوا تو اس پر احتجاج شروع ہوا۔‘

مقدمے کی حالیہ صورت حال

گرفتار ملزم کے وکیل وسند تھری نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ یہ کیس چالان ہونے جیسا نہیں ہے۔ کیوں کہ ملزم نے کسی مذہب کے متعلق نہیں لکھا اور صرف اپنا ایک اظہار کیا ہے۔ ’اور ملزم نے یہ بات فیس بک پر لکھی ہے۔ تو اسے وفاقی تحقیقاتی ادارہ (ایف آئی اے) چلائے گا۔ تو اب آنے والے وقت میں پتہ چلے گا کہ اس کیس کا کیا ہو۔ مگر یہ سراسر کیس بنتا ہی نہیں ہے۔‘

پولیس کا موقف

تھرپارکر پولیس کے ترجمان نیاز ڈھاٹی نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا: ’ایک شہری نے پولیس سے شکایت کی جس پر ہم نے قانون کے تحت کیس کا اندراج کرکے ملزم کو گرفتار کیا ہے۔‘

ستمبر 2019 میں گھوٹکی میں ایک نجی سکول سے وابستہ ہندو استاد نوتن لال کو توہین مذہب کے الزام میں گرفتار کیا گیا، جبکہ اس سال فروری میں انہیں سزا ہوئی تھی۔

ماضی قریب میں سندھ میں پیش آنے والا اپنی نوعیت کا یہ پہلا واقعہ ہے جس میں ایک ہندو شہری کو توہین مذہب کے الزام میں سزا سُنائی گئی ہو۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان