لکی مروت: پولیس پر حملے میں چار اہلکاروں کی اموات

کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان نے اپنے ایک بیان میں اس حملے کی ذمہ داری قبول کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔

دو فروری 2013 کی اس تصویر میں لکی مروت کے علاقے نورنگ میں ایک فوجی چیک پوسٹ کے پاس کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ایک حملے کے بعد پولیس اہلکار چوکس کھڑے ہیں (اے ایف پی)

خیبر پختونخوا کے ضلع لکی مروت میں پولیس کے مطابق بدھ اور جمعرات کی درمیانی شب تھانہ صدر پر شدت پسندوں کے حملے اور بعدازاں ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس (ڈی ایس پی) کی گاڑی کے قریب ہونے والے دھماکے میں ڈی ایس پی اقبال مہمند سمیت چار اہلکار جان سے گئے جبکہ دونوں واقعات میں چھ اہلکار زخمی بھی ہوئے ہیں۔

لکی مروت پولیس کے ترجمان شاہد حمید نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ گذشتہ رات تقریبا ایک بجے شدت پسندوں نے تھانہ صدر پر بھاری ہتھیاروں سے حملہ کیا جس کا پولیس نے جواب دیا۔

شاہد حمید کے مطابق تھانے پر حملے کے بعد ڈی ایس پی اقبال مہمند نفری سمیت روانہ ہوگئے تو راستے میں پیر والا موڑ کے قریب پولیس کی گاڑی کو آئی ای ڈی کے ذریعے دھماکے سے اڑا دیا گیا جس کے نتیجے میں ڈی ایس پی اقبال مہمند اور تین اہلکار کانسٹیبل وقار، کانسٹیبل علی مرجان اور کانسٹیبل کرامت اللہ جان سے گئے جبکہ ڈی ایس پی کے ڈرائیور زخمی ہوگئے۔

شاہد حمید نے بتایا کہ ’پولیس سٹیشن حملے میں چار اہلکار زخمی ہوئے، جنہیں قریبی ہسپتال منتقل کیا گیا جبکہ گاڑی پر دھماکے کے نتیجے میں ڈی ایس پی سمیت چار اہلکار جان سے چلے گئے اور ایک زخمی ہوا۔‘

کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے اپنے ایک بیان میں اس حملے کی ذمہ داری قبول کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔

لکی مروت گذشتہ چند مہینوں سے مسلسل شدت پسندوں کے حملوں کی زد میں ہے اور شدت پسندوں کی موجودگی کی وجہ سے گذشتہ ماہ لکی مروت کے بعض علاقوں میں پولیس اور پاکستان فوج نے مشترکہ ٹارگٹڈ آپریشن بھی کیا تھا۔

رواں برس فروری میں بھی لکی مروت میں کیے گئے سکیورٹی فورسز کے ایک مشترکہ آپریشن کے نتیجے میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے 12 شدت پسند مارے گئے تھے۔

لکی مروت میں شدت پسندی

 خیبر پختونخوا کے جنوبی اضلاع ابتدا ہی سے شدت پسندی سے متاثر رہے ہیں، جن میں سب سے زیادہ متاثرہ اضلاع میں شمالی و جنوبی وزیرستان شامل ہیں، تاہم ان اضلاع سمیت لکی مروت اور بنوں بھی ماضی میں شدت پسند گروپوں کا گڑھ رہا ہے۔

غیر سرکاری ادارہ پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار پیس سٹڈیز (پی آئی ایف ایس) جو سکیورٹی معاملات پر نظر رکھتا ہے، کے مطابق 2022 میں شدت پسند حملوں میں 2021 کے مقابلے میں 27 فیصد اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔

پی آئی ایف ایس کے مطابق 2022 میں مجموعی طور پر ملک بھر میں 262 حملوں میں سے 169 حملے خیبر پختونخوا میں کیے گئے اور سب سے زیادہ متاثرہ اضلاع میں جنوبی وزیرستان میں 30 حملے ہوئے ہیں۔

دوسرے نمبر پر زیادہ حملے شمالی وزیرستان میں 12، لکی مروت میں 13، ڈیرہ اسماعیل خان اور خیبر میں 14 حملے ہوئے جبکہ 77 فیصد حملوں میں سکیورٹی فورسز کو نشانہ بنایا گیا ہے۔

ملک بھر میں ہونے والے حملوں میں پی آئی ایف ایس کے مطابق 419 افراد ہلاک جبکہ 734 زخمی ہوئے۔ ہلاکتوں کی شرح 2021 کے مقابلے میں 2022 میں 25 فیصد زیادہ ہے۔

 لکی مروت میں 2010 میں سب سے بڑا حملہ آج بھی لوگوں کے ذہنوں میں موجود ہے، جب لکی مروت کے ایک والی بال گراؤنڈ میں دھماکہ ہوا تھا جس میں 140 سے زائد اموات ہوئی تھیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

 جس بستی میں یہ واقعہ ہوا تھا، اس بستی کو اب ’بیواؤں کی بستی‘ کہا جاتا ہے کیونکہ اس گاؤں کے گھروں میں تقریباً تمام مرد چل بسے تھے۔

گذشتہ 15 سال سے شدت پسندی سے متعلق امور کی رپورٹنگ کرنے والے صحافی رفعت اللہ اورکزئی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کا فوکس ہمیشہ جنوبی اضلاع ہی رہا ہے اور ان اضلاع میں سینکڑوں شدت پسند کارروائیاں کر چکے ہیں۔

لکی مروت میں مولوی ٹیپو گل کا ایک شدت پسند گروپ بہت سرگرم ہے۔ رفعت اللہ نے بتایا کہ لکی مروت میں شدت پسند کارروائیوں کی ایک وجہ اس گروپ کا ٹی ٹی پی کے ساتھ  گذشتہ سال الحاق ہے۔

 انہوں نے بتایا: ’ٹیپو گل کے تین شت پسند گروپ تھے اور تینوں نے ٹی ٹی پی کے ساتھ الحاق کیا ہے۔ ایک دوسرا گروپ اختر گل محسود گروپ بھی ہے، جنہوں نے ٹی ٹی پی کے ساتھ الحاق کیا ہے۔‘

رفعت اللہ اورکزئی نے مزید بتایا: ’2021 سے لکی مروت میں جتنے بھی حملے ہوئے ہیں، اس میں ان گروپوں کا ہاتھ ہے جو ٹی ٹی پی کے ساتھ الحاق کر چکے ہیں۔‘

انہوں نے مزید بتایا کہ ’لکی مروت میں اختر خلیل شدت پسند گروپ بھی موجود ہے، جو وزیرستان کے حافظ گل بہادر گروپ کے قریب سمجھا جاتا ہے اور حالیہ دنوں میں دو واقعات ہوئے ہیں، جن میں سکیورٹی اہلکاروں کا سر قلم کر دیا گیا تھا اور اس کا الزام اختر خلیل گروپ پر ہے۔

رفعت اللہ کے مطابق: ’اختر خلیل گروپ بھی ایک وقت میں ٹی ٹی پی کے ساتھ ملا ہوا تھا، تاہم حافظ گل بہادر کے کچھ لوگ جن میں علیم خان گروپ بھی تھا جب ٹی ٹی پی کے ساتھ مل گیا، تو اختر خلیل گروپ ٹی ٹی پی سے چلا گیا اور یہ ان کے آپس کے اختلافات تھے۔‘

رفعت اللہ اورکزئی نے بتایا کہ ’پچھلے سال نومبر میں ایک آپریشن کیا گیا تھا اور شدت پسندی میں کمی آئی تھی، لیکن اب ٹی ٹی پی کے حکومت کے ساتھ مذاکرات ناکام ہونے کے بعد شدت پسندی میں دوبارہ اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔‘

مقامی صحافی زبیر مروت کے مطابق علاقے میں تعلیم کی کمی بھی شدت پسندی کی ایک وجہ ہے کیونکہ ان کے مطابق زیادہ تر شدت گروپوں میں شامل افراد مقامی ہی ہیں۔

 انہوں نے بتایا: ’تعلیم کے مواقع کم ہوں، تو نوجوان اس قسم کی شدت پسند سرگرمیوں کی طرف چلے جاتے ہیں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان