جسٹس عیسیٰ کے خلاف ریفرنس واپس لیا جائے: وزیراعظم کی ایڈوائس

ایوان وزیراعظم کے مطابق سپریم کورٹ کے سینیئر ترین جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف کیوریٹیو ریویو ریفرنس کمزور اور بے بنیاد وجوہات پر دائر ہوا تھا، لہذا حکومت نے اس کی پیروی نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

سپریم کورٹ کے سینیئر ترین جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ (تصویر: سپریم کورٹ ویب سائٹ)

وزیراعظم شہباز شریف نے سپریم کورٹ آف پاکستان کے سینیئر ترین جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس میں عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے خلاف کیوریٹیو ریویو ریفرنس (قابل اصلاح جائزہ) اور دیگر متفرق درخواستیں واپس لینے کی ایڈوائس صدر مملکت ڈاکٹرعارف علوی کو بھجوا دی ہے۔ 

اسلام آباد میں ایوان وزیراعظم کے مطابق صدر مملکت کو بھجوائی جانے والی ایڈوائس پر وزیراعظم شہباز شریف نے جمعرات کو افطار کے وقت سے پہلے دستخط کیے۔ 

وزیراعظم سے بھیجے گئے ریفرنس میں کہا گیا: ’دستور پاکستان کے آرٹیکل 48(1) اور وفاقی کابینہ کے حالیہ فیصلے کے مطابق صدر کو ایڈوائس کی جاتی ہے کہ وہ کیوریٹیو ریویو ریفرنس اور
نظرثانی کی متفرق سول اپیلیں واپس لیں۔‘ 

پی ٹی آئی حکومت نے سپریم کورٹ کے 26 اپریل 2021 کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس میں فیصلے کے خلاف کیوریٹیو ریویو اور نظرثانی کی متفرق سول درخواستیں دائر کی تھیں۔ 

قاضی فائز عیسیٰ بنام صدر پاکستان و دیگر کے عنوان سے نو سول متفرق درخواست دائر ہوئی تھیں۔

ایڈوائس کے متن میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کے وکیل (ایڈووکیٹ آن ریکارڈ) انیس محمد شہزاد کو کیوریٹیو ریویو ریفرنس واپس لینے کی اجازت دے دی گئی ہے۔ 

وزیراعظم نے ایڈوائس میں صدر مملکت کو کیوریٹیو ریویو ریفرنس اور متفرق درخواستوں کی واپسی کی منظوری دینے کا کہا ہے۔

وزیراعظم شہباز شریف نے ایڈوکیٹ آن ریکارڈ انیس محمد شہزاد کو کیوریٹیو ریویو ریفرنس واپس لینے کے پروانے پر بھی دستخط کر دیے ہیں۔

اس سے قبل وزیراعظم شہباز شریف نے وزیر قانون سینیٹر اعظم نذیر تارڑ کو سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف کیوریٹیو ریویو ریفرنس واپس لینے کا حکم جاری کیا تھا۔

وزیراعظم آفس سے جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ کیوریٹیو ریویو ریفرنس کمزور اور بے بنیاد وجوہات پر دائر ہوا تھا، لہذا حکومت نے اس کی پیروی نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

بیان کے مطابق ’ریفرنس کے نام پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور ان کے اہل خانہ کو ہراساں اور بدنام کیا گیا۔‘

مزید کہا گیا کہ یہ ریفرنس نہیں تھا بلکہ آئین اور قانون کی راہ پر چلنے والے ایک منصف مزاج جج کے خلاف ایک منتقم مزاج شخص کی انتقامی کارروائی، عدلیہ کی آزادی پر شب خون اور اسے تقسیم کرنے کی مذموم سازش تھی۔

’عمران نیازی نے صدر کے آئینی منصب کا اس مجرمانہ فعل کے لیے ناجائز استعمال کیا اور صدر عارف علوی عدلیہ پر حملے کے جرم میں آلہ کار اور ایک جھوٹ کے حصہ دار بنے۔‘

بیان میں کہا گیا کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) اور اتحادی جماعتوں نے اپوزیشن کے دور میں بھی اس جھوٹے ریفرنس کی مذمت کی تھی۔

جبکہ پاکستان بار کونسل سمیت وکلا تنظیموں نے بھی اس کی مخالفت کی تھی۔

بیان کے مطابق وزیراعظم کی زیر صدارت کابینہ پہلے ہی اس فیصلے کی منظوری دے چکی ہے۔

جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس 

صدارتی ریفرنس میں اثاثہ جات ریکوری یونٹ اور فیڈرل بورڈ آف ریوینیو (ایف بی آر) کی جانب سے کی گئی تحقیقات کے مطابق جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر الزام عائد کیا گیا تھا کہ انہوں نے لندن میں موجود اہلیہ اور بیٹے کے نام جائیداد کو اپنے اثاثوں میں ظاہر نہیں کیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس حوالے سے جسٹس فائز عیسیٰ نے صدر عارف علوی کو لکھے گئے خط میں موقف اختیار کیا تھا کہ ’ان کی اہلیہ اور بچے ان کے زیر کفالت نہیں ہیں، لہذا ان کی جائیدادوں کو اپنے اثاثوں میں ظاہر کرنا ضروری نہیں تھا۔‘

انہوں نے خط میں مزید کہا تھا کہ ’ٹیکس حکام نے انہیں کبھی اس حوالے سے کوئی نوٹس نہیں دیا، لہذا ان کے خلاف ریفرنس سےحکومت کی بدنیتی ظاہر ہو رہی ہے۔‘

اس سلسلے میں جسٹس عیسیٰ کی اہلیہ سرینا عیسیٰ نے بذریعہ ویڈیو لنک عدالت عظمیٰ کے سامنے اپنا بیان بھی ریکارڈ کروایا تھا، جس میں انہوں نے یہ ساری تفصیلات فراہم کیں کہ انہوں نے لندن میں جائیداد کب اور کیسے خریدی اور اس کے لیے رقوم کہاں سے آئیں۔

جون 2020 میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کے فیصلے میں عدالت نے ایف بی آر کو ان کی اہلیہ سرینا عیسیٰ کی جائیداد اور ٹیکس کے معاملات دیکھنے کے بارے میں حکم دیا تھا اور اس کی رپورٹ سپریم کورٹ کے رجسٹرار کے پاس جمع کروانے کی ہدایت کی تھی۔

اپریل 2021 میں سپریم کورٹ کے دس رکنی بینچ نے جسٹس قاضی فائز عیسی کے خلاف صدارتی ریفرنس سے متعلق عدالتی فیصلے پر نظرثانی کی اپیلیں منظور کی تھیں اور فیڈرل بورڈ آف ریونیو سمیت تمام فورمز پر اس سلسلے میں جاری قانونی کارروائی کو کالعدم قرار دیا۔

مئی 2021 میں نظرثانی اپیلوں پر وزارت قانون نے ایک اور نظر ثانی دائر کی تھی۔ نظر ثانی کے اوپر نظر ثانی کو کیوریٹیو ریویو کہتے ہیں یعنی قابل اصلاح ریویو۔

یہ سماعت کے لیے مقرر ہی نہیں ہوا تھا کیونکہ دوسری دفعہ نظر ثانی درخواست کا اصول موجود ہی نہیں ہے۔ رجسٹرار سپریم کورٹ نے بھی اس پر اعتراض عائد کر دیا تھا اور جسے اب حکومت نے واپس لینے کا فیصلہ کیا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان