میرا قتل ہوا تو جنت میں جاؤں گا: جسٹس قاضی فائز عیسیٰ

سپریم کورٹ میں جسٹس عیسیٰ نظر ثانی کیس کی براہ راست کوریج کی درخواست پر سماعت کے دوران جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ’عدلیہ کے خلاف ففتھ جنریشن وار شروع کی گئی لیکن ملک دشمنوں کے خلاف ففتھ جنریشن وار نہیں ہو رہی۔‘

سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز  عیسیٰ (تصویر: بشکریہ سپریم کورٹ ویب سائٹ)

سپریم کورٹ میں جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نظر ثانی کیس کی براہ راست کوریج کی درخواست پر سماعت کے دوران قاضی فائز عیسیٰ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ آغا افتخار الدین مرزا نے انہیں قتل کی دھمکی دی، ’اگر میرا قتل ہوا تو شہید کہلاؤں گا اور جنت میں جاؤں گا۔‘

یاد رہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کیس میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، ان کی اہلیہ سرینا عیسیٰ سمیت مختلف بار کونسلز نے نظر ثانی درخواستیں دائر کی تھیں۔

 بدھ (17 مارچ کو) جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے دس رکنی بینچ نے قاضی فائز عیسیٰ نظر ثانی کیس کی اوپن سماعت کے معاملے کو سنا۔

سماعت کے آغاز پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمٰن نے فلوریڈا کی عدالت کے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ فلوریڈا کی عدالت ٹرائل کی براہ راست کوریج کی مخالفت کی، کیونکہ اس سے عدالتی وقار میں کمی آتی ہے۔

عامر رحمٰن کے مطابق: ’ججز کو عوامی سطح پر کم ہی جانا پہچانا جاتا ہے۔ خدشہ ہے کہ براہ راست کوریج ہوئی تو فیصلے قانونی نہیں مقبولیت پر مبنی ہوں گے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’عدالتی کارروائی کے وقت عوام کی اکثریت اپنے کام کاج پر ہوتی ہے۔ لوگ پرائم ٹائم میں ہی ٹی وی دیکھتے ہیں۔ یہ کہنا غلط ہے کہ لائیو کوریج سے وکلا کو سیکھنے کا موقع ملے گا۔ وکلا اگر لا کالج سے نہیں سیکھ سکے تو لائیو کوریج سے کیا سیکھیں گے۔‘

عامر رحمٰن نے مزید کہا کہ ’عدالتی کارروائی تکنیکی نوعیت کی ہوتی ہے، جو عام آدمی نہیں سمجھ سکتا۔ ججز مقدمہ سمجھنے کے لیے سوالات کرتے ہیں اور ان کے سوالات سے عام آدمی سمجھنے کی بجائے کنفیوز ہو گا۔کورٹ رپورٹرز آسان زبان میں کارروائی عوام تک پہنچاتے ہیں جبکہ ججز کے کنڈیکٹ پر پارلیمنٹ میں بھی بحث نہیں ہو سکتی۔‘

دلائل مکمل کرتے ہوئے عامر رحمٰن نے مزید کہا کہ ’براہ راست کوریج سے ججز کے کنڈیکٹ پر عوامی سطح پر بحث ہو گی۔ یہ دلیل بھی درست نہیں کہ براہ راست کوریج سے ججز کا احتساب ہوگا۔ ججز کے احتساب کا قانونی طریقہ موجود ہے۔ ججز ٹی وی پر نہیں اپنے فیصلوں کے ذریعے بولتے ہیں۔‘

اس موقع پر جسٹس مقبول باقر نے استفسار کیا کہ ’آپ کا اعتراض عدالتی کارروائی کی ویڈیو نشریات پر ہے یا آڈیو نشریات پر؟‘

جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ’اعتراض براہ راست نشریات پر ہے، چاہے وہ آڈیو ہو یا ویڈیو۔ امریکی جج نے کہا تھا کہ عدلیہ کو انٹرٹینمنٹ کا ذریعہ نہیں بننا چاہیے۔‘

جسٹس عمر عطا بندیال نے عامر رحمن کے دلائل سن کر کہا کہ ’آپ کے دلائل مضبوط ہیں ان کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔‘

ایڈیشنل اٹارنی جنرل کے بعد جسٹس فائز عیسیٰ کی اہلیہ سرینا عیسیٰ روسٹرم پر آ گئیں اور عدالت میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ’وہ بلوچستان کی عدالتوں میں بہت مدد کرتی رہی ہیں۔‘ انہوں نے کہا کہ ’میرے شوہر ہائی کورٹ کے چیف جسٹس تھے تو ان کی مدد کرتی تھی۔ پہلے کبھی تصویر نہیں بنی تھی۔ اب عدالت آتے جاتے میری ویڈیوز بنائی جاتی ہیں۔ ایف بی آر جاتی تھی تب بھی میری ویڈیوز بنائی جاتی تھیں۔‘

سرینا عیسیٰ نے جائیداد کے حوالے سے عدالت کو بتایا کہ ’اپنی رقم سے خریدی گئی جائیداد راتوں رات میرے شوہر کی بنادی گئی۔ میں عمران خان سے زیادہ ٹیکس ادا کرتی ہوں۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’فروغ نسیم نے سیاسی ایجنڈے کی تکمیل کے لیے عہدے کا ناجائز استعمال کیا اور جسٹس فائز عیسیٰ کو راستے سے ہٹانے کے لیے غیر قانونی اقدامات کیے گئے۔ میرے ساتھ حکومتی عہدیداروں کا رویہ تضحیک آمیزہے۔‘

ان دلائل پر جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ ’اس وقت براہ راست نشریات کی درخواست پر سماعت ہو رہی ہے۔‘

قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’کیس میں وہ فریق تھیں تب ہی انہیں کوئی نوٹس جاری کیا گیا۔‘ انہوں نے کہا کہ ’عمران خان میں شکست تسلیم کرنے کا حوصلہ نہیں۔ جون 2020 تک کے میرے ٹیکس ریکارڈ تک رسائی حاصل کی گئی۔ فروغ نسیم اور انور منصور ایک دوسرے کو جھوٹا کہتے رہے۔شہزاد اکبر نے نوکری شروع کی تو ان کی تنخواہ 35 ہزار تھی جبکہ میں شہزاد اکبر سے 22 سال پہلے سے نوکری کر رہی ہوں۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’شہزاد اکبر آج امیر آدمی ہیں، لیکن انہوں نے کبھی اثاثے ظاہر نہیں کیے۔ شہزاد اکبر کے حوالے سے ہر سچ پر پردہ ڈالا جا رہا ہے۔ نیب، ایف آئی اے اور ایف بی آر شہزاد اکبر کے معاملے پر خاموش کیوں ہیں؟‘

سرینا عیسیٰ نے مزید کہا کہ ’آغا افتخار نے سپریم کورٹ کے جج کو قتل کرنے کی دھمکی دی تھی، لیکن اس کیس میں شہزاد اکبر کو شامل تفتیش نہیں کیا گیا۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’عدالت حکم دے تو براہ راست کوریج کا بندوبست کر سکتی ہوں، لہذا کیس کی براہ راست کوریج سے سچ عوام کے سامنے لایا جائے۔‘

سرینا عیسیٰ کے دلائل مکمل ہونے کے بعد حکومتی دلائل کے جواب الجواب کے لیے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ روسٹرم پر آئے اور کہا کہ ’میری اہلیہ مقدمہ درج کروانے گئیں تو پولیس نے کہا کہ وزیر داخلہ سے اجازت لیں گے اور پانچ دن بعد پولیس نے مقدمہ ایف آئی اےکو بھجوا دیا۔‘

جسٹس عیسیٰ نے مزید کہا کہ ’آغا افتخار الدین مرزا نے مجھے قتل کی دھمکی دی، لیکن ریاست مدینہ افتخار الدین مرزا کو آزاد کر رہی ہے۔ ان کا تعلق شہزاد اکبر سے نکلا لیکن تفتیش روک دی گئی۔ میری اہلیہ نے آئی ایس آئی سے تحقیقات کا کہا لیکن ان سے تفتیش نہیں کی گئی۔‘

ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ ’اگر فائز عیسیٰ قتل ہوا تو شہید کہلائے گا اور جنت میں جائے  گا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’جسٹس منظور ملک نے میری رہنمائی کی ہے اور ان کی ہدایت پر کوشش ہے کہ جذباتی نہ ہوں۔ عدلیہ کے خلاف ففتھ جنریشن وار شروع کی گئی لیکن ملک دشمنوں کے خلاف ففتھ جنریشن وار نہیں ہو رہی۔‘

جسٹس عیسیٰ کا کہنا تھا: ’حکومتی سوشل میڈیا بریگیڈ میرے خلاف جھوٹ بول رہی ہے۔ سوشل میڈیا پر انسان اکیلا اپنا دفاع نہیں کر سکتا۔ مجھے برا بھلا نہیں کہا جارہا بلکہ پوری سپریم کورٹ کو برا بھلا کہا جا رہا ہے۔ میرے خلاف شکایت کنندہ عبدالوحید ڈوگر نے یوٹیوب پر اعتراف کیا کہ وہ حساس ادارے کا ٹاؤٹ ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’سوشل میڈیا بریگیڈ منہ چھپا کر حملے کر رہی ہے اور موجودہ حکومت ملک کو گٹر میں لے کر جا رہی ہے۔ پاکستان کو گٹر کہنے کی بات کو غلط انداز میں پیش کیا گیا۔ یہاں بیٹھے صحافیوں کی خبریں اخبارات اور ٹیلی وژن پر نشر نہیں ہوتیں بلکہ موسمی صحافیوں کی توڑ مروڑ کر پیش کی گئی خبریں نشر ہوتی ہیں۔‘

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے عدالت کو بتایا کہ ان کے خلاف یوٹیوب پر پروپیگنڈہ کیا جا رہا ہے۔ ’یوٹیوب چینل نہیں بنا سکتا، اس لیے عدالت میں کھڑا ہوں۔‘ انہوں نے مزید کہا کہ ’بول ٹی وی کا مالک کون ہے یہ کوئی نہیں بتائے گا۔ دبئی میں بول ٹی وی کے شیئرز کس کے پاس ہیں، اس کا میڈیا بھی ذکر نہیں کرے گا۔‘ ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ ’میرے نام سے تین جعلی ٹوئٹر اکاؤنٹس بنے ہوئے ہیں، میں تین بار خط لکھ چکا ہوں کہ میرا کوئی ٹوئٹر اکاؤنٹ نہیں ہے۔‘

انہوں نے  مزید کہا کہ ’صدر مملکت بھول جاتے ہیں کہ وہ پی ٹی آئی کے ورکر ہیں۔ کیچڑ مجھ پر اچھالا گیا لیکن برداشت ان سے نہیں ہو رہا تھا۔ صدر مملکت نے ایوان صدر میں بیٹھ کر تین انٹرویوز دیے۔ صدر نے کہا کہ ریفرنس پر خاموش رہنے اور میڈیا ٹرائل کا بھی آپشن تھا اور انہوں نے تیسرا آپشن یعنی جوڈیشل کونسل استعمال کیا۔‘

اس موقع پر جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ ’صدر کبھی میڈیا ٹرائل نہیں کرواتے، یہ خود ہو جاتا ہے۔ بہتر ہوگا کہ ان باتوں پر نہ جائیں۔ عدالت جس سماعت کے لیے بیٹھی ہے، اس سے بات دوسری طرف جاچکی ہے۔ ہمیں کمنٹری سننے پر مجبور نہ کریں۔‘

قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ’میں سچ بولتا رہوں گا، چاہے کسی کو برا ہی کیوں نہ لگے۔ انہوں نے مزید کہا کہ انہوں نے ریفرنس پر کوئی بیان جاری نہیں کیا، خبر حکومت نے لیک کی۔ ’مزید تین سال بینچ میں رہنے یا پینشن لینے میں کوئی دلچسبی نہیں۔ میری دلچسپی صرف عدلیہ کی عزت اور احترام میں ہے۔‘

جسٹس عیسیٰ نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’میڈیا کی آزادی سلب کی جارہی ہے۔ جو کچھ میں یہاں بولتا ہوں اس کے برعکس چلایا جاتا ہے۔ چاہتا ہوں کہ لوگ میری بات براہ راست سنیں۔ میری گفتگو کا مکمل حصہ میڈیا رپورٹ نہیں کرتا۔‘

اس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے انہیں مخاطب کرکے کہا کہ ’قاضی صاحب ہر انسان کی اپنی رائے ہوتی ہے۔ ایک بندے سے سن کر اگلا بندا بتاتے ہوئے آدھی بات بھول جاتا ہے۔‘

جس پر جسٹس عیسیٰ نے جواب دیا کہ ’ہم احمقوں کی جنت میں نہیں رہ رہے۔ عدالت خود دیکھ سکتی ہےکہ کارروائی کتنی رپورٹ ہوتی ہے۔‘

براہ راست عدالتی کارروائی پر جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ ’امریکہ میں عدالتی کارروائی براہ راست نہیں بلکہ ریکارڈ رکھا جاتا ہے۔‘ جس پر جسٹس قاضی عیسیٰ نے جواب دیا کہ ’ہم امریکہ کے غلام نہیں اور نہ ہی ان کے پیچھے چلنے کے پابند ہیں۔ ہمارے پاس ایمان کی طاقت ہے، ہمارا رہنما قائد اعظم محمد علی جناح ہے۔ امریکہ میں عوام کے حقوق جس انداز میں دیئے جاتے ہیں وہ سب جانتے ہیں۔‘

جسٹس عمر عطا بندیال نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے کہا کہ ’آپ کے تحریری دلائل کا جائزہ لے لیا گیا ہے، آپ کے تمام دلائل اوپن کورٹ میں سماعت کے تھے۔ 

اس کے ساتھ ہی عدالت نے مزید دلائل کے لیے کیس کی سماعت کل (18 مارچ) تک کے لیے ملتوی کر دی۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان