سپریم کورٹ آف پاکستان کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰٰ نے اپنے کیس اعلی عدالت کے سامنے دلائل دیتے ہوئے کہا ہے کہ لگتا ہے آج ہم پاکستان میں نہیں، گٹر میں رہ رہے ہیں۔
سپریم کورٹ کے دس رکنی بینچ کے سامنے جسٹس قاضی فائز عیسیٰٰ کی نظرثانی درخواستوں کی براہ راست نشریات سے متعلق درخواست پر سماعت ہوئی، جس میں ان کے وکیل منیر اے ملک کی بیماری کے باعث جسٹس عیسیٰ نے خود دلائل دینے کی اجازت مانگی اور عدالت نے انہیں ایسا کرنے کا موقع دیا۔
جسٹس عیسیٰ نے اپنے دلائل کے آغاز میں عدالت سے انہیں حد پار کرتا محسوس ہونے پر روک دینے کی استدعا کی، جس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ججز کی ایک ذمہ داری صبر اور تحمل کرنا بھی ہے، اگر کچھ لوگ آپ کے خلاف ہیں تو آپ کے حامی بھی موجود ہیں۔
جسٹس عیسیٰٰ نے کہا کہ موجودہ کیس اپنی نوعیت کا منفرد کیس ہے اور آزادی اظہار رائے ہر شخص کا بنیادی حق ہے۔
اس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے جسٹس عیسیٰ سے ان کی درخواستوں میں اٹھائے گئے نکات پر دلائل دینے کو کہا۔
انہوں نے کہا: ’دائیں بائیں بیٹھے ججز اتنی تفصیلات سن کر فوکس نہیں کرپا رہے لہٰذا بہتر ہوگا کہ براہ راست اصل مدعے پر آئیں۔‘
جسٹس عیسیٰ نے دلائل دیتے ہوئے سوال اٹھایا کہ صدر ڈاکٹر عارف علوی، وزیر اعظم عمران خان اور وفاقی وزرا ذاتی حیثیت میں گفتگو کر سکتے ہیں، لیکن وہ بطور جج ذاتی حیثیت میں بھی گفتگو نہیں کرسکتے؟عوام کو انصاف ہوتا ہوا نظر بھی آنا چاہیے۔
انہوں نے مزید کہا: ’زیادہ چالاک نہ ہونے کی وجہ اپنا نقطہ سمجھا نہیں سکے، دو سال سے میرے خلاف حکومتی پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے، سپریم کورٹ کے جج اور اہل خانہ کے خلاف سرکاری چینل سے پروپیگنڈا کیا گیا، مسئلہ دس لاکھ تنخواہ کا نہیں بلکہ ملک کے مستقبل کا ہے اور میں یہ جنگ اپنے ادارے کے لیے لڑ رہا ہوں۔‘
اپنے دلائل کے دوران جسٹس عیسیٰٰ جذباتی بھی ہو گئے اور عدالت سے سوال کیا: ’اگر میری جگہ آپ کی اہلیہ اور بچے ہوتے تو آپ لوگ کیا کرتے؟ کل کو کسی بھی جج کو پروپیگنڈے میں گھسیٹا جاسکتا ہے، اگر فاضل ججز کو کوئی بات گراں گزری ہوتو معذرت چاہتا ہوں۔‘
جسٹس عیسیٰ نے کہا کہ ملک میں میڈیا کی حالت دیکھ لیں، صحافیوں کو اسلام آباد سے اغوا کر لیا جاتا ہے اور صحافیوں کے اغوا پر وزیر اعظم کہتے ہیں مجھے کیا معلوم کیا ہوا، صحافیوں پر تشدد ہوا کسی نے انکوائری تک نہیں کی، ذمہ داروں کا نام بتاؤں تو میرے خلاف ریفرنس آجائے گا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے مزید کہا کہ سانحہ مشرقی پاکستان پر بات کی جائے تو خاموش کرا دیا جاتا ہے، قائد اعظم اور میرے والد کی روح قبر میں تڑپ رہی ہو گی، ایک فوجی ڈکٹیٹر کی اقتدار کی ہوس نے ملک تباہ کر دیا۔
جسٹس عیسیٰ کے دلائل پر جسٹس عمر نے کہا: ’جج صاحب یہ قانون کی عدالت ہے، ہم نے مقدمات کے فیصلے کرنے ہیں، آپ کو کسی سے مسئلہ ہے تو اسے عدالت سے باہر رکھیں، بہتر ہو گا کہ ہم اپنی حدود سے باہر نہ نکلیں۔‘
جسٹس منظور ملک نے بھی جسٹس عیسیٰ کو جذباتی نہ ہونے کا مشورہ دیتے ہوئے توجہ مقدمے پر رکھنے کا کہا، جس پر جسٹس عیسیٰ نے کہا کہ ان کی ذات کو بھول جائیں، وہ ملک کے لیے جذباتی ہو رہے ہیں، لگتا ہے آج ہم پاکستان میں نہیں گٹر میں رہ رہے ہیں۔
عدالت نے جسٹس عیسیٰ کے دلائل کے دوران ہی سماعت بدھ تک ملتوی کر دی۔
جسٹس عیسیٰ کی درخواستیں سنننے والے دس رکنی بینچ میں جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس مقبول باقر، جسٹس منظور احمد ملک، جسٹس مظہر عالم خان میانخیل، جسٹس سجاد علی شاہ، جسٹس سید منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحیی آفریدی، جسٹس قاضی محمد امین احمد اور جسٹس امین الدین خان شامل ہیں۔