کیا واقعی حکومت کے پاس الیکشن کے لیے فنڈز نہیں؟

سابق سیکرٹری الیکشن کمیشن کنور دلشاد کہتے ہیں کہ ’ماضی میں فنڈز نہ ہونے کی وجہ سے الیکشنز نہ ہونے کی کوئی مثال نہیں ملتی، اگر ایسا ہوا تو پہلی مرتبہ ہو گا۔‘

الیکشن کمیشن نے پنجاب کے الیکشن اپریل کی بجائے اکتوبر میں کروانے کا اعلان کیا ہے (اے ایف پی)

راجا توقیر ایک کامیاب بزنس مین ہیں۔ وہ پاکستان کی معاشی صورت حال پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ ’انہوں نے ملکی حالات کی وجہ سے بزنس میں کئی اتار چڑھاؤ دیکھے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’مڈل کلاس کے لیے جو غیر یقینی کی صورت حال آج کل ہے وہ اس سے پہلے نہیں تھی۔‘

وہ سمجھتے ہیں کہ جب تک الیکشن نہیں ہوں گے ملک کی معاشی اور سیاسی سمت درست نہیں ہو سکتی۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے الیکشن کے لیے 30 اپریل کی تاریخ دیے جانے پر وہ خوش تھے۔ لیکن جب نہوں نے سنا کہ حکومت کے پاس الیکشنز کروانے کے لیے بجٹ نہیں ہے تو انہوں نے تحقیق کرنے کا فیصلہ کیا کہ الیکشن کے لیے کتنا بجٹ درکار ہے اور کیا حکومت کے پاس واقعی فنڈز نہیں ہیں۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان سے رابطہ کرنے پر انہیں بتایا گیا کہ حکومت پاکستان نے 2023 جنرل الیکشنز کے لیے تقریباً 47 ارب روپے بجٹ کا تخمینہ لگایا تھا۔ تحریک انصاف کے قومی اسمبلی سے استعفوں کے بعد ان حلقوں میں دوبارہ الیکشنز کروانے کے لیے مزید 14 ارب روپے مانگے گئے۔ یوں ٹوٹل بجٹ 61 ارب روپے ہو گیا۔

پنجاب اور خیبرپختونخوا میں الیکشنز کروانے کے لیے 25 ارب روپے مانگے گئے، جس میں سے پانچ ارب الیکشن کمیشن کے پاس موجود ہیں۔ یعنی کہ مزید 20 ارب روپے مل جائیں تو الیکشنز کروائے جا سکتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ’یہ رقم کتنی چھوٹی ہے اس کا اندازہ آپ یوں لگا لیجیے کہ یہ رقم ملک کے سالانہ بجٹ کا صرف 0.18 فیصد بنتی ہے۔ جس ملک کا جی ڈی پی 353 ارب ڈالرز سے زیادہ ہو یہ کیسے ممکن ہے کہ اس کے پاس الیکشنز کروانے کے لیے صرف 20 ارب روپے نہ ہوں؟‘

ان کے مطابق: ’ایک طرف سرکار نوجوانوں کے لیے 150 ارب روپے کا ڈویلپمنٹ بجٹ منظور کر رہی ہے اور دوسری طرف یہ عذر پیش کیا جا رہا ہے کہ الیکشنز کروانے کے لیے 20 ارب روپے نہیں ہیں۔‘

وہ سوچتے ہیں کہ 150 ارب روپوں میں سے 20 ارب روپے الیکشنز کے لیے الگ کیے جا سکتے ہیں اور بقیہ 130 ارب روپوں سے بھی بہترین منصوبے شروع ہو سکتے ہیں۔ وہ اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ حکومت غلط بیانی سے کام لے رہی ہے۔ مسئلہ بجٹ کا نہیں نیت کا ہے۔

سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر سلیمان شاہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’مفتاح اسماعیل نے جو بجٹ پاس کیا تھا اس میں وفاق اور صوبوں کے اخراجات تقریباً 12 ہزار ارب سے زیادہ ہیں۔ جب وہ تمام اخراجات ہو رہے ہیں تو ان میں سے صرف 20 ارب روپے کیسے نہیں نکالے جا سکتے؟ جو لوگ فنڈز نہ ہونے کا راگ الاپ رہے ہیں وہ سفید جھوٹ بول رہے ہیں اور میرے مطابق ان پر آرٹیکل 6 لگنا چاہیے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’جتنا الیکشنز کا بجٹ ہے اس سے زیادہ خرچ اور نقصان تو عمران خان کی گرفتاری، کارکنان کی پکڑ دھکڑ، آنسو گیس، جلاؤ گھیراو اور عدالتی کیسز پر ہو چکا ہو گا۔‘

سابق سیکریٹری الیکشن کمیشن کنور دلشاد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’ماضی میں فنڈز نہ ہونے کی وجہ سے الیکشنز نہ ہونے کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ اگر ایسا ہوا تو پہلی مرتبہ ہو گا۔ لیکن اس وقت پاکستان ترقی کی جانب گامزن تھا۔ فنڈز کی قلت نہیں تھی۔ جو معاشی بحران آج ہے وہ ماضی میں نہیں تھا۔ پہلے حلقے بھی کم تھے، اب تین گنا بڑھ چکے ہیں۔ الیکشن کمیشن کی ترجمان کو اس حوالے سے میڈیا کو بریفنگ دینی چاہیے۔‘

سابق وزیر خزانہ حفیظ پاشا نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’حکومت کا یہ دعوی پاکستان کا عالمی سطح پر مذاق اڑانے کے مترادف ہے۔ اس دعوے پر یقین کرنا نان سینس ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے کہا کہ ’سپریم کورٹ میں اگر الیکشنز کا کیس درست سمت میں چلے اور سرکار سے پورا حساب کتاب منگوایا جائے تو سچ ایک دن میں عوام کے سامنے آ جائے گا۔ سپریم کورٹ نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ الیکشنز کروانے کے لیے ہماری تنخواہوں پر پانچ فیصد کٹوتی کر لی جائے۔ اس سے آگے تو کچھ نہیں ہے۔ حکومت کو شرم کرنی چاہیے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’عجیب بات ہے کہ حکومت نے کویتی کمپنی کو ڈیزل کی ادائیگی کرنے کے لیے 27 ارب روپوں کی سپلیمنٹری گرانٹ کی منظوری دے دی ہے۔ لیکن الیکشنز کے لیے 20 ارب روپے نہیں ہیں۔ ان حقائق کے بعد کون حکومت پر یقین کرے گا۔‘

ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن آف پاکستان کے جزل سیکریٹری ظفر پراچہ صاحب نے انڈیپنڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’چند روز قبل مجھے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے فنانس میں بلایا گیا جہاں یہ انکشاف ہوا کہ خیبرپختونخوا کے چھ وزیروں کے پاس 65 گاڑیاں ہیں۔ اسی طرح اجلاسوں اور کمیٹیوں کے انعقاد کے نام پر روزانہ اربوں روپے خرچ ہو رہے ہیں۔ اگر حکومت اجلاس آن لائن منعقد کرنا شروع کر دے، بیوروکریٹس کی مراعات کم کرے اور سیاستدانوں کو گاڑیاں اور فیول دینا بند کرے تو 20 دن میں 20 ارب کی بچت ہو جائے گی اور اس سے الیکشنز کروائے جا سکیں گے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ریٹنگ کم ہونے کی وجہ سے حکومت نے دو ارب ڈالرز کے بانڈز جاری نہیں کیے۔ اس طرح کے بیانات سے ریٹنگ مزید کم ہو گی اور ملک میں ڈالرز بھی نہیں آ ئیں گے۔‘

ماہرِ معیشت ڈاکٹر فرخ سلیم نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’اطلاعات ہیں کہ سرکار نے ایم این ایز کو 110 ارب روپے ترقیاتی کاموں کے لیے جاری کیے ہیں۔ میڈیا پر اربوں روپوں کی اشتہاری مہم چلائی جا رہی ہے۔ مبینہ طور پر حکومتی مشینری اور فنڈز استعمال کر کے سیاسی جلسے کیے جا رہے ہیں۔ لہٰذا الیکشن کروانے کا بجٹ نہ ہونے کا دعویٰ غلط ہے۔

’ایتھیوپیا، گھانا جیسے ملکوں میں بھی ایسی مثال نہیں ملتی۔ اگر ایٹمی ملک کہے کہ ایک قومی اور آئینی فریضہ انجام دینے کے لیے صرف 20 ارب نہیں ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ ملک دیوالیہ ہو چکا ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ