جب دادا جی ہمارے تیروں کا نشانہ بنے

ہم نے غصے کے مشہور دادا جی کے پہلو کو تیروں سے ترازو کر دیا، اس کے بعد انہوں نے ہم سے کیا سلوک کیا؟

(اے ایف پی)

بہت پرانی بات ہے۔ ایک میرے والد کے چچا ہوتے تھے۔ نام ان کا صدر الدین تھا۔ بیوی کا نام حلیمہ بی بی تھا۔ ان کی اولاد نہیں تھی۔ دونوں ہمارے ہی گھر میں رہتے تھے۔ پکے نمازی، تہجد گزار اور روزہ دار تھے۔

بابا صدر الدین یعنی ایک قسم کے میرے دادا جی کے غصے کا پارہ ہمیشہ 190 ڈگری پر رہتا تھا۔ ان کے شعلوں کی تاب صغیر و کبیر نہ لا سکتے تھے۔ حلیمہ بی بی ان کی ضد تھی یعنی نہایت رحم دل خاتون تھیں۔ ہم چھوٹے چھوٹے تھے، شرارتیں جانے انجانے میں بہت کرتے تھے اور دادا جی سے سخت جملے سُنتے تھے، ہماری ہر شرارت پر ایسی ایسی بلیغ گالیاں دیتے تھے جن کی داد جعفر زٹلی کے علاوہ کوئی نہیں دے سکتا تھا۔

دادا جی کا ایک قانون تھا کہ گالیاں جھولی بھر بھر کر دیتے مگر عملی طور پر کسی کو نہ مارتے۔ ان کی حرکات سے یوں لگتا ابھی توپ چلا دیں گے مگر انجام غلیل ثابت ہوتے۔ میرے بارے میں ان کا فیصلہ تھا کہ یہ لڑکا ہر عمل میں دنیا کے اُلٹ چلے گا اور ایک دن اپنی گردن میں ریشم ڈلوائے گا۔

ہمارا گھر کچا تھا اور بہت بڑا تھا۔ ایک بڑے احاطے میں اِدھر اُدھر کچے مکان تھے اور بیچ میں کھُلا صحن تھا۔ انہی میں ایک کمرا دادا جی اور اماں حلیمہ کے پاس تھا۔ صدر الدین قائد اعظم کے بہت خلاف تھے۔ ان کو گاہے گاہے صلواتوں سے نوازا کرتے تھے۔ کہتے، ’ایک بار وہ فیروز پور میں  آیا۔ نواب ممدوٹ اُس کے ساتھ تھا، نواب ہم سے باتیں کرتا رہا اور وہ گُنگ بیٹھا رہا۔ مَیں نے نواب سے کہا تو چپ کر، جس نے پاکستان بنانا ہے اسے بولنے دے۔ پھر میں نے قائد اعظم سے کہا، ہاں بھائی محمدے (یعنی محمد علی جناح) تو گل کر، جدوں پاکستان بنے گا، فِر ساڈا فیروز پور کتھے جائے گا ؟، لیکن جواب دینا تو ایک طرف اس نے میری بات ہی نہ سمجھی، آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر پاگلوں کی طرح دیکھتا رہا۔ بعد میں پتہ چلا، اسے تو پنجابی نہیں آتی۔ پھر میں نے لوگوں کو بہت کہا، اس کے پیچھے نہ لگو، تمہیں کسی کالے کنویں میں پھینکے گا اور ہمیں اجاڑ کے رکھ دے گا مگر میری کسی نے نہ سنی۔ اور تو اور خود نواب نے نہ سنی۔‘

’ووٹ پڑے تو میں نے یونیسٹ کو ووٹ دے دیا۔ میں نے کہا۔ نہ کانگرس چاہیے نہ مسلم لیگ، یہ انگریز پارٹی مجھے ٹھیک ہے۔ پر وہ ان کالوں کے مقابلے میں ہار ہی گئے۔ بس اسی دن سے ہماری قسمت ہار گئی۔ اس نے سب کچھ تباہ کروا دیا۔ یہاں اوکاڑے میں لا کے مروا دیا۔‘

مجھے اکثر کہتے، ’کاکا تجھے نہیں پتا فیروز پور چھڈنا کتنا اوکھا تھا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جب اپنی موج میں ہوتے تو مزے مزے کے قصے سناتے، اور جب غصے میں ہوتے تو طوفانِ نوح لاتے اور نمرود کی  آگ برساتے۔ ایک دفعہ ہوا یہ کہ ہمارے گھر میں نیاز کی دیگ پک رہی تھی۔ اور بابا صدر الدین دیگ پکوا رہے تھے۔ وہ اس طرح کے کھانے اپنی نگرانی میں بڑے عمدہ پکواتے تھے۔ ایک ایک شے نائی کو بتاتے تھے اور خود اوپر کھڑے رہے تھے۔

میرا بچپن تھا۔ میرے ہاتھ میں ایک تیر کمان تھی۔ آپ سمجھیں یہ بچوں کے کھیل کی تیر کمان ہوتی تھی۔ اسے بنانے کا طریقہ یہ تھا کہ ایک شہتوت کی چھڑی لی۔ اس میں لچک زیادہ ہوتی ہے اور ٹوٹتی کم ہے۔ اسے دونوں سروں سے موڑ کر کمان کی شکل دی اور ایک مضبوط دھاگے سے باندھ دیا۔ اس کے بعد سرکنڈے کا ایک کانا لے لیتے۔ اس کے اگلے سرے پر چنگا مضبوط کانٹا یا سوئی ٹھونس لیتے اور اس کے بعد پرندوں کا شکار کرتے پھرتے۔

یہ کانا کبھی سیدھا میسر نہ آتا تھا۔ اس میں ٹیڑھ ضرور ہوتی تھی اور ہلکا بھی ہوتا تھا۔ لہٰذا اس کا نشانہ کبھی سیدھا نہ لگتا تھا۔ اگر آپ مشرق کی طرف نشانہ لے کر پھینکتے تو وہ شمال مشرق کی طرف مڑ جاتا۔ کبھی کبھی تو یہ ہوتا کہ  آپ نے اسے پھینکا سامنے ہے لیکن اپنی ٹیڑھ اور ہوا کی بدولت گرا آپ کی پچھلی طرف۔

اس قسم کے تیر کمان سے نشانہ لیتے وقت صرف آپ کا نشانہ ٹھیک ہونا ضروری نہیں بلکہ بادبان اور کمپاس کے ساتھ ساتھ  آپ پر وحی اترنا بھی ضروری ہے۔ اور یہ سب چیزیں ایک  آٹھ دس سال کے بچے کے پاس کہاں؟

اب ہوا یہ کہ دادا جی کو دیگ پکواتے ہوئے نماز کا وقت ہو گیا۔ انہوں نے وہیں جائے نماز بچھا لی اور نماز کے لیے کھڑے ہو گئے۔ ادھر میرے ہاتھ میں تیر کمان تھی۔ تیر کے  آگے ڈھائی تین انچ کی سوئی جڑی ہوئی تھی۔ ہمارے گھر میں ایک چمبیلی کا بوٹا تھا۔ اس پر ایک لالی آ کر بیٹھ گئی۔ لیجیے صاحب ہم نے اس لالی کا شکار کرنے کے لیے شست باندھ لی۔ کمان کی رسی پر تیر رکھ کر اس کو ایسا کھینچا کہ تیر گولی کی رفتار سے جائے۔ وہی ہوا، تیر ایک دم ایسی تیزی سے نکلا کہ ہم خود دنگ رہ گئے۔

مگر شامتِ اعمال، تیر نے اپنی سمت تبدیل کر لی۔ لالی تو وہیں بیٹھی رہی اور تیر سیدھا دادا جی کی کمر میں ترازو ہو گیا۔ دادا جی اس وقت سجدے کی حالت میں تھے۔ جیسے ہی تیر ان کے پہلو میں لگا، وہ ایک دم ٹیڑھے سے ہو گئے اور اونچی آواز میں ’ہائے سبحان ربی الاعلی‘ کہا۔ میں نے دیکھا ان کے سجدے کی حالت میں تیر ان کی کمر میں ایسے پیوست تھا جیسے زمین پر نیزہ گڑا ہو۔ اس کا مطلب تھا سوئی پوری کی پوری ان کے گوشت میں اتر گئی تھی۔

یہ دیکھ کر میرے ہاتھ پاؤں پھول گئے۔ دادا جی کی اگرچہ تسبیح میں ’ہائے‘ کا اضافہ ہو گیا تھا مگر فی الحال وہ نماز توڑنا نہیں چاہتے تھے۔ لیکن مجھے معلوم ہو چکا تھا کہ نماز سے فارغ ہوتے ہی وہ نادر شاہ بن جائیں گے۔ اب میں نے کہا جو بھی ہو اس لالی کا نشانہ لے کر رہوں گا۔ فوراً دوسرا تیر کمان میں رکھا اور پہلے تیر کی ٹیڑھ کا اندازہ کر کے دوسرا تیر تھوڑا سا لالی کی طرف ترچھا کر کے چھوڑ دیا اور ہوا یہ کہ وہ بھی ترچھا ہی گیا اور پھر دادا جی کی کمر میں پیوست ہو گیا۔

میرا غصہ دو چند ہو گیا۔ تیسرا تیر چڑھانے ہی لگا تھا کہ میری والدہ آ گئیں۔ انہوں نے میرے کان پر ایک جمائی، بولیں، ’شمر کی اولاد یہ کیا کر رہا ہے؟ دادا نماز میں بیٹھے ہیں اور تو تیر پر تیر چھوڑے جاتا ہے؟‘

والدہ نے تیر کمان میرے ہاتھ سے لے لیا۔ پھر اس سے پہلے کہ دادا جی نماز سے فارغ ہوتے، میں گھر میں موجود ٹاہلی کے درخت کی چوٹی پر چڑھ گیا اور اس چڑھائی کا انتظار کرنے لگا جس کے بعد اسلام مکمل نافذ ہو جاتا ہے۔ پورا گھر سہما ہوا تھا۔ تھوڑی ہی دیر میں وہ نماز سے فارغ ہو گئے، پھر دعا مانگی۔ اس کے بعد نائی سے کہا، ’لا بھئی اپنا نشتر لے کر میری کمر سے شمر کے یہ نیزے نکال۔‘

نائی بھی سہما سہما تھا اور میں درخت پر بیٹھا سب دیکھ رہا تھا۔ نائی نے دیگ کو چولھے پر چھوڑا اور اپنی گتھلی سے نشتر لے کر سوئیاں نکالنے لگا۔ جب سوئیاں نکل چکیں تو دادا جی  آرام سے اٹھے اور میری طرف منہ کر کے  آواز دی، ’بیٹا، اب نیچے آ جاؤ، آج تمھیں نماز نے بچا لیا ہے، سجدے میں دل ذرا موم ہو گیا تھا۔‘

میں تھوڑی دیر اوپر ہی رہا کہ میٹھی آواز سے بلاتے ہیں مگر اترتے ہی آگ ہو جائیں گے۔ لیکن وہ یہ جملہ کہہ کر دیگ کی طرف متوجہ ہو گئے۔ میں رفتہ رفتہ ٹاہلی سے اترنے لگا۔ کچھ ہی دیر میں ڈر جاتا رہا اور میں نیچے آ گیا مگر حیرت کی بات کہ انہوں نے مجھے کچھ نہ کہا بلکہ میرے سر پر ہاتھ پھیر کر بولے، ’پُتر یاد رکھ، جن کے اجداد ایک دفعہ ہاتھ سے تیر کمان رکھ دیں دوبارہ ان کے نشانے کبھی ٹھیک نہیں لگتے۔ ان کے تیر غیروں کی بجائے ہمیشہ اپنوں ہی کے پہلو میں ترازو ہوتے ہیں۔‘

آج سوچتا ہوں دادا جی کی یہ بات کتنی سچ تھی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی میری کہانی