سپریم کورٹ میں بغاوت جیسی صورت حال، چیف جسٹس مستعفی ہوں: مریم نواز

مریم نواز کا کہنا ہے کہ چیف جسٹس نے عمران خان اور پی ٹی آئی کی حمایت کے لیے قانون اور آئین کی کھلم کھلا خلاف ورزی کی۔

اس سے قبل کسی چیف جسٹس پر اس طرح کی مس کنڈکٹ کا الزام نہیں لگا: مریم نواز (اے ایف پی)

پاکستان مسلم لیگ ن کی چیف آرگنائزر مریم نواز نے جمعے کو کہا کہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کو ہر صورت استعفیٰ دے دینا چاہیے۔  

انہوں نے ٹوئٹر پر کہا کہ اس سے قبل کسی چیف جسٹس پر اس طرح کی مس کنڈکٹ کا الزام نہیں لگا تھا۔ ’ان کا پی ٹی آئی کی طرف جھکاؤ نمایاں ہے۔ چیف جسٹس بندیال مستعفی ہو جائیں۔‘

ایک دوسری ٹویٹ میں مریم نواز کا کہنا تھا کہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے عمران خان اور پی ٹی آئی کی حمایت کے لیے قانون اور آئین کی کھلم کھلا خلاف ورزی کی۔

’اختیارات کے اس صریح غلط استعمال نے پاکستان کی سپریم کورٹ میں بغاوت جیسی غیر معمولی صورت حال کو جنم دیا ہے۔

’بے عیب شہرت کے ججوں نے چیف جسٹس کے طرز عمل اور تعصب پر سنگین سوالات اٹھائے ہیں۔‘

وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب نے آج ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں انتخابات سے متعلق ازخود نوٹس میں جسٹس اطہر من اللہ کے نوٹ کے بعد چیف جسٹس عمر عطا بندیال کو استعفیٰ دے دینا چاہیے۔

انہوں نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہ چار ججوں کا فیصلہ مس کنڈکٹ، آئین کی غلط تشریح اور اختیارات کے ناجائز استعمال پر مہر ہے۔

’اس کے بعد چیف جسٹس آف پاکستان کی پوزیشن متنازع ہو گئی ہے، انہیں مستعفی ہو جانا چاہیے۔‘ 

وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ آئین کی اپنی مرضی کے مطابق تشریح قبول نہیں کی جا سکتی۔ ’ناقابل سماعت درخواست پر بینچ بنا کر دیا گیا، فیصلہ قبول نہیں کیا جا سکتا۔ مسترد پٹیشن پر بینچ کیسے بنا؟‘
مریم اورنگزیب نے کہا کہ جسٹس اطہر من اللہ کے نوٹ کے منظر عام پر آنے کے بعد آئین کی فتح ہوئی۔

انہوں نے مزید کہا کہ سچ بولنے والے ججوں نے اپنے فیصلے کے ذریعے اس سہولت کاری کو بے نقاب کر دیا۔

انہوں نے سوال اٹھایا کہ جس فیصلے کو ججوں کی اکثریت نہ مانے، جس فیصلے پر سپریم کورٹ خود تقسیم ہو اس کو عوام کیسے مان لیں؟

انہوں نے کہا کہ یہ ازخود نوٹس بنتا ہی نہیں تھا۔ ’یہ پری میچیور کیس تھا، اس سے تاثر آ رہا ہے کہ ایک سیاسی حکمت عملی کو آگے بڑھانے کی اجازت دی گئی اور آئینی بحران اس از خود نوٹس سے شروع ہوا۔‘

جسٹس اطہر من اللہ کا نوٹ

اس سے قبل آج  ازخود نوٹس کیس میں جسٹس اطہرمن اللہ کا نوٹ سامنے آیا جس میں انہوں نے لکھا کہ عدالت عظمیٰ مسلسل سیاسی تنازعات کے حل کا مرکز بنی ہوئی ہے جبکہ ایک سیاسی جماعت کے اسمبلی سے استعفوں کی وجہ سے سیاسی بحران میں اضافہ ہوا۔

نوٹ کے مطابق پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی درخواست پر جس انداز سے کارروائی شروع کی گئی اس سے عدالت سیاسی تنازعات کا شکار ہوئی۔

’عدالت کو سیاسی تنازعے سے بچنے کے لیے اپنے نوٹ میں فل کورٹ کی تشکیل کی تجویز دی تھی۔‘

جسٹس اطہر من اللہ نے مزید کہا کہ ’سیاست دان اپنے معاملات سیاسی بات چیت سے حل کریں، ستم ظریفی ہے کہ سیاسی تنازعات میں عدالت کو شامل کیا جاتا ہے حالانکہ اس کا تصور بھی نہیں کیا جانا چاہیے۔ سیاسی جماعتوں سے متعلق مقدمات میں سو موٹو اختیار استعمال کرنے میں بہت احتیاط برتنا چاہیے۔‘

جسٹس اطہر من اللہ نے 25 صفحات پر مشتمل نوٹ کہا کہ سیاست دان مناسب فورمز کی بجائے عدالت میں تنازعات لانے سے ہارتے یا جیتتے ہیں، لیکن عدالت ہر صورت ہار جاتی ہے۔

’سپریم کورٹ سمیت تمام اداروں کو اپنی انا ایک طرف رکھ کر آئینی ذمہ داریوں کو پورا کرنا چاہیے، سپریم کورٹ نے اپنی ماضی کی تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔‘ 

نوٹ میں مزید کہا گیا: ’ماضی کے فیصلوں کو مٹایا نہیں جا سکتا لیکن کم ازکم عوامی اعتماد بحال کرنے کوشش کی جا سکتی ہے، ملک ایک سیاسی اور آئینی بحران کے دہانے پر کھڑا ہے، وقت آ گیا ہے کہ تمام ذمہ داران ایک قدم پیچھے ہٹیں اور کچھ خود شناسی کا سہارا لیں۔

’عدالت سے رجوع کرنے والی سیاسی جماعت کی نیک نیتی بھی مدنظر رکھنا ضروری ہے۔‘

جسٹس اطہر من اللہ کے نوٹ میں قاسم سوری رولنگ کیس کا بھی حوالہ دیا گیا۔ 

ازخود نوٹس مسترد کرنے کی وجوہات

جسٹس اطہر من اللہ نے لکھا ہے کہ پنجاب اور خیبر پختونخوا انتخابات کی تاریخ کا ازخود نوٹس خارج کیا جاتا ہے اور درخواستوں اور از خود کو خارج کرنے کی تین بنیادی وجوہات کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے لکھا: ’فل کورٹ کی جانب سے آرٹیکل 184/3 کے استعمال کے بنیادی اصولوں کی پابندی بنچ پر لازم تھی، عدالت کو اپنی غیر جانبداری کے لیے سیاسی جماعتوں کے مفادات کے معاملات پر احتیاط برتنا چاہیے، عدالت کو سیاسی درخواست گزار کا طرز عمل اور نیک نیتی بھی دیکھنا چاہیے، درخواست گزاروں کا رویہ اس بات کا متقاضی نہیں کہ 184/3 کا اختیار سماعت استعمال کیا جائے، ازخود نوٹس لینے کا مطلب غیر جمہوری اقدار اور حکمت عملی کو فروغ دینا ہو گا۔

’ماضی کےفیصلوں کو مٹایا نہیں جا سکتا لیکن کم از کم عوامی اعتماد بحال کرنےکی کوشش کی جاسکتی ہے، انتخابات کی تاریخ کا معاملہ ایک تنازعہ سے پیدا ہوا جو بنیادی طور پر سیاسی نوعیت کا تھا، جسٹس یحییٰ آفریدی نے درست کہا کہ عدالت کو از خود نوٹس کے استعمال میں احتیاط برتنا چاہیے، سپریم کورٹ کو یکے بعد دیگرے تیسری بار سیاسی نوعیت کے تنازعات میں گھسیٹا گیا ہے۔‘

ازخود نوٹس فیصلہ چار تین کی اکثریت سے ہے

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ سپریم کورٹ مسلسل سیاسی تنازعات کے حل کا مرکز بنی ہوئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ 27 فروری کو چائے کے وقفے میں میٹنگ روم میں اتفاق رائے ہوا کہ میں بینچ میں بیٹھوں گا، ازخود نوٹس کا فیصلہ چار تین کا ہے، الیکشن از خود نوٹس کی 23 فروری کی سماعت کے حکم میں جسٹس یحیٰی آفریدی کا الگ نوٹ بھی تھا، جسٹس یحیی آفریدی نے ناقابل سماعت ہونے کی بنیاد پر ازخود نوٹس اور درخواستیں مسترد کر دی تھیں۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ واضح رہےکہ وہ بینچ سے الگ ہوئے نہ ہی اپنےمختصر نوٹ میں ایسی کوئی وجوہات دیں۔ ’میں نے بھی اپنے نوٹ میں درخواستوں کے ناقابل سماعت ہونے کے بارے میں بلا ہچکچاہٹ رائے دی تھی، جبکہ میں نے 24 فروری کے آرڈر میں بھی اپنے فیصلے کا حوالہ دیا تھا۔

جسٹس اطہر من اللہ نے لکھا: ’میں نے اپنے قابل عزت ساتھی ججز کے تفصیلی فیصلے بھی پڑھے ہیں۔ جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس جمال خان مندوخیل کی تفصیلی وجوہات سے مکمل اتفاق کرتا ہوں، اتفاق کرتا ہوں کہ ازخود نوٹس کیس تین چار سے مسترد ہو، از خود نوٹس کیس کے دوران 27 فروری کو میٹنگ روم میں یہ طے ہوا تھا۔‘

مزید کہا کہ ’عدالت کو سیاسی تنازع سے بچنے کے لیے اپنے نوٹ میں فل کورٹ کی تشکیل کی تجویز دی تھی، فل کورٹ کی تشکیل سے عوامی اعتماد قائم رہتا، تفصیلی وجوہات میں یہ بات بھی ریکارڈ پر رکھنا چاہتا ہوں کہ نہ میں نے خود کو بینچ سے الگ کیا نہ لاتعلقی کی۔‘ 

صوبائی اسمبلی سیاسی حکمت عملی میں تحلیل ہوئی

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ’ازخود نوٹس کی کارروائی نے عدالت کو غیر ضروری سیاسی تنازعات سے دو چار کر دیا ہے۔

اس کیس میں سیاسی اسٹیک ہولڈرز کا کردار بھی دیکھنا چاہیے تھا، ایک سیاسی جماعت نے اپوزیشن کا آئینی کردار ادا کرنے کے بجائے سیاسی حکمت عملی کے طور پر استعفے دیے، جب استعفے منظور ہوئے تو منظوری کے خلاف پھر عدالتوں میں آ گئے۔‘

جسٹس اطہر من اللہ نے سوالات اٹھائے کہ سیاسی حکمت عملی کے طور پر صوبائی اسمبلیاں تحلیل کرنا کیا آئینی جمہوریت سے مطابقت رکھتا ہے؟

کیا سیاسی حکمت عملی کے طور صوبائی اسمبلیاں تحلیل کرنا بذات خود آئین کی خلاف ورزی نہیں؟

کیا سپریم کورٹ کو خود کو سیاسی حکمت عملیوں کو آگے بڑھانے کے لیے استعمال کرنے کی اجازت دینا چاہیے؟ کیا سپریم کورٹ کو غیر جمہوری طرز عمل کو فروغ دینے والا بننا چاہیے؟

’ازخود نوٹس سے پہلے سے پراگندہ سیاسی ماحول مزید تلخ ہو گیا جس سےعدالت پر اعتراضات اٹھے، اسی باعث عدالت کی غیرجانبداری پر سوالات اٹھے اور تحریری اعتراضات داخل ہوئے۔ کیا ایک ہی وقت میں عدالت عظمیٰ اور عدالت عالیہ کا فورم ایک ہی مقصد کے لیے استعمال کیے جانے کا نوٹس نہیں لیا جانا چاہئے؟

سپریم کورٹ کو خود کو کسی کی سیاسی حکمت عملیوں کو آگے بڑھانے کے لیے پیش نہیں کرنا چاہیے؟‘

ازخود نوٹس کیس میں کب کیا ہوا؟

پنجاب اور خیبر پختونخوا انتخابات ازخود نوٹس کیس میں یکم مارچ کو چیف جسٹس کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ کا فیصلہ جاری ہوا تھا، جو دو تین کی اکثریت سے تھا، لیکن ابتدائی طور پہ وہ بینچ نو رکنی تھا، جس سے دو جج خود بینچ سے الگ ہو گئے اور جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس یحییٰ آفریدی نے مختصر اختلافی نوٹ میں ازخود نوٹس کی کارروائی ختم کرتے ہوئے معاملہ چیف جسٹس پر چھوڑا تھا کہ اگر وہ انہیں مزید بینچ کا حصہ رکھنا چاہتے ہیں یا نہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس پر چیف جسٹس نے چار ججوں کو بینچ سے الگ کر کے باقی پانچ ججوں پر مشتمل بینچ بنایا تھا، جن میں چیف جسٹس سمیت جسٹس منیب اختر، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس منصور علی شاہ کے نام شامل تھے۔ 

نو رکنی بینچ میں سے جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس یحیی آفریدی اور جسٹس اطہرمن اللہ نے اپنے فیصلوں میں ازخود نوٹس کو مسترد کیا تھا، جبکہ جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس مظاہر علی نقوی نے اعتراضات کی وجہ سے خود کو بینچ سے الگ کر دیا تھا۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس منیب اختر اور جسٹس محمد علی مظہر نے ازخود نوٹس کیس سنتے ہوئے الیکشن کمیشن کا فیصلہ مسترد کر دیا تھا۔

چیف چسٹس پاکستان نے پنجاب اور کے پی انتخابات میں تاخیر پر 22 فروری کو ازخود نوٹس لیا تھا، ج کی پہلی سماعت اگلے ہی روز ہوئی۔

ازخود نوٹس میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے سوالات اٹھائے کہ اسمبلی تحلیل کے بعد انتخابات کی تاریخ دینا کس کی آئینی ذمہ داری ہے ؟

انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے وفاق اور صوبوں کی کیا آئینی ذمہ داری ہے؟ یہ آئینی ذمہ داری ادا کیسے ہو گی؟ 

تحریری حکم نامہ 27 فروری کو جاری ہونے اور بینچ تحلیل ہونے کے بعد چیف جسٹس عمر عطا بندیال کمرہ عدالت میں آ گئے تھے۔ چیف جسٹس کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ نے کیس کی سماعت شروع کی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ بینچ کے چار معزز ممبرز نے خود کو بینچ سے الگ کر لیا ہے، لیکن عدالت کا باقی بینچ مقدمہ سنتا رہے گا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست