لاہور کے علاقے گلبرگ میں نمائش گاہ آرٹ گیلری میں ’لکھا ہوا‘ کے عنوان سے تحریری فن پاروں کی نمائش جاری ہے، جسے آرٹ کے مداح خوب سراہ رہے ہیں۔
گیلری کے کری ایٹیو ڈائریکٹر عرفان گل نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں بتایا کہ یہ لاہور میں عصر حاضر کی نئی آرٹ گیلری ہے اور چونکہ رمضان کا مہینہ ہے، لہذا اس کی مناسبت سے پہلی نمائش تحریری فن پاروں کی ہوئی۔
لاہور میں یہ نمائش نو اپریل سے 19 اپریل تک جاری رہے گی۔
نمائش کے عنوان کے حوالے سے سوال پر عرفان گل نے بتایا کہ ’انسان کی ارتقا کا عمل بغیر لفظ اور آواز کے ممکن نہیں تھا۔ نمائش کا عنوان ’لکھا ہوا ہے‘ اس لیے رکھا کیونکہ ہم اسے بہت سے سیاق و سباق میں دیکھ رہے تھے کہ جیسے تقدیر کا لکھا ہوا، قرآن کا لکھا ہوا، وصیت میں لکھا ہوا، قسمت میں لکھا ہوا، کتاب میں لکھا ہوا، وغیرہ۔‘
ان کا کہنا تھا کہ لکھے ہوئے کی ایک خاص طرح کی اہمیت ہے، جس سے انکار کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ لکھے ہوئے کی اہمت کو مدںظر رکھتے ہوئے اس نمائش کا نام یہ رکھا گیا۔
انہوں نے بتایا کہ اس نمائش میں دس آرٹسٹس ہیں، جو تحریر کے ذریعے مصوری کرتے ہیں۔ ان میں محمد علی ٹالپر، شبلی منیر، شاہ عبداللہ، غلام محمد، فاضل موصوی، ثمارہ شاہد، عمران بلوچ، عابد اسلم، احسن جاوید اور فیضان رائڈنگر شامل ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے بتایا کہ ان کے علاوہ پرانے مصوروں کے فن پارے بھی اس نمائش میں رکھے گئے جن میں صادقین، جمیل نقش، گوہر قلم، امام ویردی کے فن پارے ہیں۔ اس کے علاوہ کچھ پرانے مینیو سکرپٹ بھی رکھے گئے ہیں جس میں 1817 کے کشمیری قرآن کے کچھ صفحات رکھے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ سولہویں صدی کا شاہ نامہ فردوسی کا ایک ورق بھی اس نمائش میں رکھا گیا ہے۔
عرفان نے مزید بتایا کہ اس نمائش میں ایک ’طلسماتی قمیص‘ بھی رکھی گئی جسے جنگ کے دوران سپہ سالار ایک تعویز کی صورت زرہ بکتر کے نیچے پہنا کرتے تھے۔ اس قمیص پر قرآنی آیات لکھی گئی ہیں، جو حفاظت کا کام کرتی تھی۔
عرفان کا کہنا تھا کہ ’یہ ضروری نہیں کہ جو لکھا ہوا ہے وہ سمجھ بھی آئے۔ ان فن پاروں میں الفاظ اجنبی بھی ہیں اور مانوس بھی ہیں۔ بعض اوقات یہ تحریر سمجھ میں آتے آتے بھی سمجھ نہیں آتی۔ آرٹسٹ یہ تصویر دیکھنے والے پر چھوڑ دیتے ہیں کہ وہ اسے سمجھتےہیں یا نہیں۔‘
نمائش میں موجود مصور عابد اسلم نے نمائش گاہ کے قیام کو سراہتے ہوئے کہا کہ ’پاکستان میں جو حالات چل رہے پیں اور ہمیں جن بحرانوں کا سامنا ہے اس میں یہ گیلری پاکستانی مصوروں کے لیے امید کی ایک کرن ثابت ہو گی۔ ایک ایسی جگہ جہاں وہ اپنا کام نمائش کے لیے پیش کر سکیں گے۔‘
نمائش دیکھنے کے لیے آنے والی کنزہ خان نے کہا کہ نمائش گاہ کا شمار لاہور کی چند ایسی گیلریوں میں ہوتا ہے، جہاں متاثر کرنے والا عمدہ کام نمائش کے لیے پیش کیا جاتا ہے۔