انڈیا کے زیرانتظام کشمیر کے سرسبز اور شاداب علاقے گلاب باغ میں ایک نوجوان فنکار رہتے ہیں جن کی تخلیقی صلاحیتوں کی کوئی حد نہیں۔
22 سالہ عزیز الرحمٰن نے جانوروں کی ہڈیوں کو تراش کر سجاوٹی چیزیں بنانے کے فن میں مہارت حاصل کی ہے۔
وہ ہڈیوں کی تراش خراش کے اپنے منفرد ہنر کی وجہ سے معروف ہو گئے ہیں۔
ان کی منفرد تخلیقات نے سوشل میڈیا کے شائقین اور فن سے محبت کرنے والوں کے دلوں کو یکساں طور پر اپنی گرفت میں لے لیا ہے۔
یہ صرف ایک نوجوان کی کامیابی کی کہانی نہیں بلکہ یہ جذبہ، لگن اور استقامت کی کہانی ہے۔
عزیز بتاتے ہیں کہ اس کام کے لیے وہ مختلف قسم کی ہڈیاں جمع کرتے ہیں اور اس سے مختلف چیزیں جیسے موم بتی دان، لاکٹ، قلم دان، بالیاں اور دیگر اشیا بناتے ہیں۔
عزیز کے لیے ہڈیوں کی تراش خراش ایک مشغلے کے طور پر شروع ہوئی۔
’میں فارغ وقت میں خود کو کسی نہ کسی چیز میں مشغول رکھتا تھا۔ میں ایسی مختلف کاموں کی ویڈیوز دیکھ کر متاثر ہوتا تھا کہ اگر دوسری جگہوں کے لوگ یہ کر سکتے ہیں تو ہم کشمیر میں کیوں نہیں کر سکتے۔‘
عزیز کا سفر کرونا وبا کے لاک ڈاؤن کے دوران شروع ہوا، جب انہوں نے دیکھا کہ ان کے پاس کافی وقت ہے جس سے وہ نہیں جانتے تھے کہ کیا کرنا ہے۔
فشریز ڈیپارٹمنٹ کے طالب علم کے طور پر انہوں نے معلومات حاصل کرنے کے لیے سوشل میڈیا کا رخ کیا اور ہڈیوں کی تراش خراش کی ویڈیوز کو دیکھنا شروع کردیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
عزیز کے مطابق اس آرٹ کی شکل سے متاثر ہو کر انہوں نے ہڈیوں پر مختلف قسم کی تصویریں بنانا شروع کیں اور آہستہ آہستہ ہڈیوں کی تراش خراش کے فن میں مہارت حاصل کر لی لیکن یہ کوئی آسان کام نہیں تھا-
ہڈیوں کی تراش خراش کے لیے بہت احتیاط اور توجہ کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ ہڈیاں بہت ٹوٹی پھوٹی ہوتی ہیں اور دباؤ میں آسانی سے ٹوٹ سکتی ہیں۔
عزیز نے اپنی تکنیک کو مکمل کرنے میں ان گنت گھنٹے صرف کیے اور آلات کے استعمال پر عبور حاصل کیا جو انہوں نے ایک بار کی سرمایہ کاری کے ذریعے حاصل کیے تھے۔
انہوں نے قصاب کی دکانوں سے مفت ہڈیاں اکٹھی کیں اور انہیں اپنے فن کے لیے خام مال کے طور پر استعمال کیا۔
آج عزیز صرف ایک فنکار ہی نہیں بلکہ ایک ٹریل بلیزر بھی ہیں۔
انہوں نے کشمیر میں روایتی فن کے سانچے کو توڑا ہے، جہاں ہمیشہ کڑھائی اور قالین کی بُنائی پر توجہ دی جاتی رہی ہے۔
اپنی منفرد قابلیت اور لگن کے ساتھ عزیز نے کشمیر اور اس سے باہر ہڈیوں کے تراشنے والوں کی نئی نسل کے لیے راہ ہموار کی ہے۔
عزیز کی تخلیقات نہ صرف ان کی فنکارانہ صلاحیتوں کو ظاہر کرتی ہیں بلکہ ان کے ماحولیاتی شعور کو بھی ظاہر کرتی ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ’میرے کام کا موضوع دولت کی بربادی ہے۔ کسی بھی چیز کو ضائع کرنے کی بجائے ہم اسے اچھے طریقے سے استعمال کر کے اسے مفید چیز میں تبدیل کر سکتے ہیں۔‘