مریم نواز کی ویڈیو لیک کی تحقیقات کر رہے ہیں: منصور علی خان 

اس لیکڈ ویڈیو پر مریم نواز اور منصور علی خان دونوں کو سوشل میڈیا پر میمز کی صورت میں شدید تنقید اور تمسخر کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

انٹرویو کے دوران مریم نواز نے کئی بار ریکارڈنگ رکوانے کو کہا (سوشل میڈیا ویڈیو)

سوشل میڈٰیا پر گذشتہ روز سے معروف اینکر پرسن منصور علی خان کا مسلم لیگ ن کی چیف آرگنائزر مریم نواز کے ساتھ کیے گئے ایک انٹرویو کا وہ حصہ گردش کر رہا ہے جسے مریم نوز نے انٹرویو میں شامل نہ کرنے کا کہا تھا۔ 

اس حوالے سے مریم نواز اور منصور علی خان دونوں کو سوشل میڈیا پر میمز کی صورت میں شدید تنقید اور تمسخر کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

سوشل میڈیا پر نشر ہونے والے کلپس میں 2010، 2011 میں مریم نواز کو تحفے میں ملنے والی گاڑی فروخت کرنے کے بارے میں سوال پوچھے گئے تو مریم نواز نے کہا، ’اس کو کاٹیں۔‘

اس کے علاوہ دوسرے مواقع پر بھی مریم نے ویڈیو کاٹنے کو کہا۔

مریم نواز سے کیے گئے اس انٹرویو کا حصہ لیک کیسے ہوا، اسی حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو نے منصور علی خان سے براہ راست رابطہ کیا اور کچھ سوالات پوچھے۔ 

ہم نے ان سے سب سے پہلے تو یہ پوچھا کہ انٹرویو کے دوران کیا کوئی کیمرے مسلم لیگ ن کی جانب سے بھی لگائے گئے تھے؟ 

اس سوال کے جواب میں منصور نے بتایا: ’انٹرویو کے دوران وہاں موجود چھ کے چھ کیمرے ہماری اپنی ٹیم کے تھے۔ مسلم لیگ ن کی جانب سے وہاں کوئی کیمرا موجود نہیں تھا۔‘

حزب اختلاف کی جماعت تحریک انصاف کے رہنما فواد چوہدری نے بھی اس ویڈیو کے بارے میں بیان ٹوئٹر پر کیا۔

جب مریم نواز نے یہ کہا کہ کیمرے بند کریں تو سب کیمرے کیوں بند نہیں کیے گئے؟ 

اس سوال کے جواب میں منصور نے بتایا: ’دراصل میں خود وہاں بیٹھ کر انٹرویو کر رہا تھا، ظاہری بات ہے کہ میں خود اٹھ کر جا کے سب کیمرے فرداً فرداً تو چیک نہیں کر سکتا تھا۔ چونکہ یہ ایک بڑا انٹرویو تھا اس لیے ہم نے چھ کیمرے لگائے تھے۔ 

’مرکزی کیمروں کے ساتھ ریزرو کیمرے بھی تھے کہ اگر کوئی کیمرا خراب ہو جائے تو ریزرو کیمرا ریکارڈنگ کر لے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ہمارے پاس ایک ہی زاویے سے دو ویڈیوز ریکارڈ ہو رہی تھیں۔ جب یہ فوٹیج آئی تو ہم نے دیکھا کہ جو مین کیمرے تھے وہ تو بند ہو گئے تھے لیکن جو ریزرو کیمرے تھے وہ بند نہیں کیے گئے تھے۔ 

منصور نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا: ’انٹرویو کے بعد جب میں دفتر واپس پہنچا تب مجھے معلوم ہوا وہ فوٹیج ریکارڈ ہوئی ہے۔ لیکن ہم نے اخلاقاً سوچا کہ چونکہ مریم نواز نے اس حصے کو آن ایئر بھیجنے سے منع کیا تھا اس لیے یہ اخلاقی طور پر غلط ہوتا کہ اگر ہم اسے آن ایئر کرتے بیشک اس میں کتنا ہی مصالحہ ہوتا۔

’میں یہ نہیں کر سکتا تھا۔ اس لیے ہم نے فیصلہ کیا کہ ہم اس حصے کو مرکزی انٹرویو کا حصہ نہیں بنائیں گے۔‘

انٹرویو کا وہ مخصوص حصہ ایڈیٹنگ کے دوران سسٹم سے ڈیلیٹ کیوں نہیں کیا گیا؟ 

اس سوال کے جواب میں منصور علی خان نے بتایا: ’میں نے اس وقت اپنے ایڈیٹر کو ہدایت دے دی تھی کہ اس مخصوص حصے کو ڈیلیٹ کر دیا جائے لیکن اب ہم اسی چیز کی تحقیق کر رہے ہیں کہ کیا بعد میں کہیں انہیں لمحات کے درمیان یہ ویڈیو وہاں سے تو نہیں نکلی کہ ڈیلیٹ کرنے کے باوجود کسی نے وہاں سے کاپی کر لی اور بعد میں نکال دی۔

’ہم نے اس کے بعد جو آرکائیوز دیکھیں اور جو پروگرام ایڈٹ کیا اس کے اندر تو انٹرویو کا یہ حصہ نہیں ہے۔ اس کے بعد جب یہ کلپ منظر عام پر آیا تو ہمیں اندازہ ہوا کہ کہیں سے تو اسے نکالا گیا ہے اور یہ انٹرویو کی ایڈیٹنگ کے دوران ہی ہوا ہے۔‘

فوٹیج کس نے لیک کی کیا اس کی تحقیق کی جا رہی ہے؟ 

اس سوال کے جواب میں منصور نے بتایا: ’ہم کل سے تحقیقات کر رہے ہیں، ہم نے اپنی پوری ٹیم کے فرداً فرداً انٹرویو کیے ہیں اس کے علاوہ ہمارے پاس جو سی سی ٹی وی فوٹیج تھی اس کو بھی دیکھا ہے۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’جب سے انٹرویو ریکارڈ ہوا تب سے لے کر اب تک۔ ہم نے یہ بھی دیکھا ہے کہ جس مشین پر کام ہوا اس تک کس کس کو رسائی حاصل تھی۔ مسئلہ یہ ہے کہ اس ویڈیو کو ریکارڈ ہوئے تقریباً تین ہفتے ہو چکے ہیں۔ یہ انٹرویو 20 مارچ کے آس پاس ریکارڈ ہوا تھا۔

’اس دوران اتنا زیادہ وقت گزر چکا ہے کہ اگر یہ پہلے 24 یا 48 گھنٹوں میں کچھ ہونا ہوتا تو ہمارے لیے اس شخص تک پہنچنا ہمارے لیے زیادہ آسان ہو جاتا۔ دوسری بات یہ کہ جس کمپیوٹر پر ایڈٹنگ ہو رہی تھی اس پر انٹرنیٹ کی سہولت بھی میسر ہے اس لیے ہیکنگ کے عنصر کو بھی ہم نظر انداز نہیں کر سکتے۔

’یا پھر کسی نے انٹرنیٹ، وی ٹرانسفر یا کسی اور فارمیٹ کے ذریعے فوٹیج بھیج دی ہے تو ہم اس کے بارے میں بھی کچھ نہیں کہہ سکتے۔‘ 

منصور کا کہنا تھا ہمارا کام اس وقت بہت مشکل ہے لیکن ہم اسے ٹریس کرنے کی پوری کوشش کر رہے ہیں۔ 

ویڈٰو لیک کے بعد پاکستان مسلم لیگ ن کی جانب سے کس ردعمل کا سامنا کرنا پڑا؟ 

اس سوال کے جواب میں منصور نے بتایا: ’میں نے خود مسلم لیگ ن سے رابطہ کیا کیونکہ یہ میرے لیے زیادہ شرمندگی کا سبب ہے کہ میں نے آن ایئر ان سے اس بات کا عہد کیا تھا کہ یہ حصہ آن ایئر نہیں جائے گا اور میں نے تو اس عہد کو پورا بھی کیا کیونکہ جو انٹرویو آن ائیر گیا اس میں انٹرویو کا وہ حصہ شامل نہیں تھا۔

بعد میں وہ حصہ لیک ہونے کی وجہ سے میں اپنے کیے ہوئے عہد کو پورا نہیں کر سکا جو میرے لیے شرمندگی کا سبب بنا۔

مریم نواز نے تنقید کے بعد سوشل میڈیا پر وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت ان کے پاس متعلقہ معلومات نہیں تھیں اس لیے وہ ریکارڈنگ رکوانا چاہتی تھیں۔

منصور نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ انہوں نے خود مسلم لیگ ن سے رابطہ کر کے اپنے افسوس کا اظہار کیا کہ جو کچھ ہوا وہ نہیں ہونا چاہیے تھا اور وہ یہ ساری صورت حال کو سمجھ گئے۔ 

منصور کا کہنا تھا کہ اس ساری صورت حال میں وہ خود بھی ایک وکٹم ہیں کیونکہ یہ ان کے ساتھ بھی زیادتی ہوئی ہے۔ ’بطور ایک صحافی آپ اپنے مہمان جسے آپ انٹرویو کر رہے ہوتے ہیں کے ساتھ ایک اعتماد کا رشتہ قائم کرتے ہیں اور اس ساری صورتحال میں اس اعتماد کی خلاف ورزی بھی ہوئی ہے۔‘ 

منصور علی خان نے ویڈیو لیک کے حوالے سے ایک وی لاگ بھی اپنے یو ٹیوب پر جاری کیا جس پر تنقید کرتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف کے رہنما شہباز گل نے انہیں سوشل میڈیا پر تنقید کا نشانہ بنایا اور ٹویٹ کیا: ’آج میرے میزبان عرف Don’t worry  نے پھر سے اپنے وی لاگ میں دل کھول کر رنگ بازی کی۔ پھر سے جرنلزم کی اخلاقیات کے بارے ارشادات فرمائے۔ بولے کہ چھ کیمرے لگے ہوئے تھے۔

’ہمیں تو پوری فوٹیج صرف دو سے تین کیمروں کی نظر آئی۔ جس دن آپ سچ بولیں گے، چیخنا نہیں پڑے گا۔ لوگ خود ہی یقین کر لیں گے۔‘

شہباز گل نے انٹرویو کا یہ حصہ لیک ہونے کے بعد بھی ایک ٹویٹ میں کہا تھا: ’منصور صاحب اچھے بھلے صحافی بن رہے تھے اس ویڈیو لیک نے تو انہیں لونڈا لپاڑا بنا ڈالا۔‘

شہباز گل کے اس ردعمل کے بارے میں منصور نے کہا کہ ’شہباز گل ایسے سیاست دان ہیں جو مسلم لیگ ن کی مخالفت میں سیاست کر رہے ہیں اس لیے ایک سیاست دان کی جانب سے ایسا ردعمل آنا ایک قدرتی سی بات ہے اس لیے مجھے اس پر برا نہیں لگا نہ ہی مجھے اس سے کوئی فرق پڑتا ہے۔

’لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کو ساری صورت حال کا نہیں معلوم اور اس پر بیان دینے سے تو میں انہیں روک نہیں سکتا یہ ان کا حق ہے۔‘ 

آخر میں منصور نے کہا، ’ایک صحافی ہونے کے ناطے ہم اس کوڈ آف کنڈکٹ کی پیروی کرتے ہیں کہ اگر کوئی یہ کہہ دے کہ اس چیز کو ریکارڈ نہ کریں پھر چاہے وہ آڈیو ریکارڈنگ ہو یا ویڈیو ہم اس اخلاقی کوڈ کی پیروی کرتے ہیں۔ 

’میں ماضی میں بھی ایک مرتبہ یونس خان کے ساتھ ایک انٹرویو کیا سب کچھ ریکارڈ پر تھا لیکن انہوں نے کسی بات کو شامل نہ کرنے کا کہا اور میں نے اسے شامل نہیں کیا تھا۔ اس وقت وہ پاکستان ٹیم کے کپتان بھی تھے۔

’دوسری بات یہ کہ میرے ساتھ آئندہ بھی کوئی مہمان بیٹھیں گے تو میں اس کوڈ آف کنڈکٹ کو فالو کروں گا کیونکہ یہ میرا فرض ہے۔‘ 

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان