پاکستان میں تمباکو نوشی سے یومیہ 460 اموات: رپورٹ

خیبر پختونخوا میں ٹوبیکو کنٹرول سیل کے پراجیکٹ کوآرڈینیٹر اجمل شاہ کے مطابق پاکستان میں روزانہ تقریباً پانچ ہزار افراد تمباکو کے استعمال کی وجہ سے ہسپتال پہنچ جاتے ہیں۔

31 مئی، 2013 کو تمباکونوشی کے خلاف عالمی دن کے موقعے پر لی گئی اس تصویر میں ایک دکان دار راولپنڈی میں اپنے سٹال پر سگریٹ پی رہا ہے (اے ایف پی)

ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں تمباکو نوشی سے ہونے والی یومیہ اموات کی تعداد 274 سے بڑھ کر 460 کے قریب پہنچ گئی ہے جبکہ نو عمر بچوں میں تمباکو نوشی کا رجحان پایا گیا ہے۔

پاکستان میں تمباکو کے استعمال سے اموات میں اضافے اور مارکیٹ میں جدید ٹوبیکو مصنوعات کی خرید و فروخت کے خلاف بروقت اقدامات اٹھانے کے موضوع پر ہفتے کو کانفرنس کا انعقاد کیا گیا، جس میں پشاور کی ضلعی انتظامیہ، ٹوبیکو کنٹرول کی صوبائی اور نیشنل قیادت سمیت سول سوسائٹی اور میڈیا نے شرکت کی۔

محکمہ صحت کے ساتھ کام کرنے والے غیر حکومتی ادارے بلیو وینز اور ٹوبیکو کنٹرول سیل کی منعقدہ اس کانفرنس میں ماہرین نے تازہ اعداد وشمار اور تفصیلات شریک کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں تمباکو نوشی سے ہونے والی یومیہ اموات 274 سے بڑھ کر 460 کے لگ بھگ پہنچ گئی ہے۔

دوسری جانب روزانہ 15 سال سے کم عمر کے 1100 سے 1200 بچوں کو سگریٹ کی لت پڑ گئی ہے، جن میں بڑی تعداد میں بغیر دھوئیں والی تمباکو کی مصنوعات  ہیٹڈ ٹوبیکو پراڈکٹس (ایچ ٹی پی) پی رہے ہیں۔

’یومیہ پانچ ہزار مریض‘

خیبر پختونخوا میں 2013 میں قائم ہونے والے ٹوبیکو کنٹرول سیل کے پراجیکٹ کوآرڈینیٹر اجمل شاہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’پاکستان میں روزانہ تقریباً پانچ ہزار افراد تمباکو کے استعمال کی وجہ سے ہسپتال پہنچ جاتے ہیں۔

‘جب سے جدید ٹوبیکو مصنوعات مارکیٹ میں آئی ہیں، خطرہ مزید بڑھ گیا ہے کیونکہ نئی اقسام، جن میں پاؤچز، الیکٹرانک سگریٹ، ویپ وغیرہ شامل ہیں، دراصل روایتی سگریٹ سے زیادہ مضر ہیں۔

’ان کے بارے میں آگاہی نہ ہونے کی وجہ سے یہ کھلے عام فروخت ہو رہے ہیں۔  اس صورت حال میں متاثرہ افراد کے لیے محکمہ صحت میں کوئی خاطرخواہ بندوبست بھی نہیں ہے۔’

نیشنل ہیلتھ سروسز ریگولیشن اینڈ کوآرڈینیشن وزارت کے تحت قائم ٹوبیکو کنٹرول سیل کے فوکل پرسن نعیم اختر کے مطابق مسئلہ یہ ہے کہ ٹوبیکو انڈسٹری بہت طاقت ور ہے، جن کے سامنے حکومت کی کوششیں ’ہاتھی اور چیونٹی کا موازنہ ہے۔‘

 انہوں نے مزید کہا کہ ’پھر بھی ہماری بھرپور کوشش ہے خصوصاً تعلیمی اداروں کو تمباکو سے پاک کریں۔‘

انہوں نے الیکٹرانک سگریٹ، نکوٹین پاؤچزکوایک بہت بڑا چیلنج قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان کے خلاف مسلسل اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں۔

’پاکستان کا مسئلہ یہ ہے کہ ہم قوانین بنانے میں تاخیر کردیتے ہیں۔  یہاں ریسرچ کا فقدان ہے اور زیادہ تر اعداد وشمار مغربی دنیا سے لیے جاتے ہیں۔

’آج بھی پاکستان میں تمباکو نوشی کے حوالے سے اعداد وشمار حاصل کرنے کے لیے ٹوبیکو انڈسٹری پر انحصار کیا جاتا ہے۔‘

اس مشترکہ کانفرنس میں حکومتی اداروں کو آگاہ کرتے ہوئے کہا گیا کہ تمباکو نوشی کی مارکیٹ میں نئی اقسام متعارف ہونے سے ٹوبیکو کا استعمال پہلے سے بڑھ گیا ہے اور مزید نقصان دہ ہوگیا ہے، جس نے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔

عہدے داران کا یہ بھی کہنا تھا کہ ایچ ٹی پی کے بارے میں ابتدا میں غلط فہمی یہ رہی کہ یہ زیادہ خطرناک نہیں اور اس حوالے سے حکومتوں کو بھی گمراہ کیا گیا۔

بروقت پالیسی کے لیے تجاویز اور قوانین کے نفاذ پر غور

غیر حکومتی ادارے بلیو وینز کے سربراہ قمر نسیم نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ کانفرنس کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ چونکہ حال ہی میں پشاور اور ایبٹ آباد کو ‘تمباکو سے پاک‘ قرار دیا گیا ہے، لہذا سٹیک ہولڈرز اور حکومتی اداروں کو ایک جگہ پر بٹھا کر انہیں چیلنجز، خطرات اور آئندہ کے لائحہ عمل سے آگاہ کیا جائے اور بروقت پالیسی بنانے کے لیے تجاویز فراہم کی جائیں۔

’حکومتی اداروں، ضلعی انتظامیہ، محکمہ صحت، سول سوسائٹی اور میڈیا کو ایک جگہ پر بٹھا کر عمل درآمد کے طریقہ کار کو یقینی بنانے، حکمت عملی، شعور پھیلانے اور رپورٹنگ کے طریقہ کار پر روشنی ڈالی گئی۔ اور یہ کہ محکمہ صحت اور ضلعی انتظامیہ کیسے ایک دوسرے کے ساتھ اس مد میں کام کریں گے۔

’اس کے علاوہ 2002 کا جو قانون ہے اس میں جرمانوں کے نفاذ پر بات ہوئی۔‘

انہوں نے مزید بتایا کہ کانفرنس کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ بروقت خطرات کا جائزہ لیا جاسکے۔

’ایک مقصد یہ تھا کہ ہم پاکستان کے اندر تمباکو نوشی فریم ورک کا جامع جائزہ لیں کہ اس کے قوانین کیا ہیں، ان میں کن قوانین پر عمل درآمد ہوسکتا ہے اور کن پر نہیں۔

’کیا چیلنجز ہیں اور قانون اگرچہ موجود ہے لیکن اب چونکہ نئی تمباکو مصنوعات بازار میں دستیاب ہیں ان کو روکنے کے لیے نئی قانون سازی کی ضرورت ہے، اور جن کو ریگولیٹ کروانا بہت ضروری ہے۔‘

دھوئیں کے بغیر تمباکو مصنوعات اور ان کے اثرات

دھوئیں کے بغیر تمباکو مصنوعات ایک بڑی اور غیر منظم مارکیٹ ہے۔

بغیر دھوئیں والی تمباکو مصنوعات کو ہیٹڈ ٹوبیکو پراڈکٹس (ایچ ٹی پی) بھی کہا جاتا ہے۔

ان میں ای یا الیکٹرانک سگریٹ، ویپ، نکوٹین پاؤچز، نسوار وغیرہ شامل ہیں۔

تاہم ٹوبیکو کنٹرول اداروں کے مطابق یہ ایک غیر منظم لیکن بڑی مارکیٹ ہے، جس سے ماہانہ پانچ ارب روپے کی آمدن آتی ہے۔

ٹیوبر کولوسس (ٹی بی) کے خلاف کام کرنے والے بین الاقوامی ادارے ‘دی یونین’ جو کہ تمباکو کے خلاف جنگ میں گلوبل لیڈر کا کردار ادا کررہا ہے کے ٹینیکل ایڈوائزر خرم ہاشمی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’ایچ ٹی پی انڈسٹری سے ماہانہ پانچ ارب روپے کی آمدن حکومت نہیں بلکہ کاروباری طبقے کی جیبوں میں جاتی ہے۔

‘جبکہ ان خطرناک مصنوعات سے متاثرہ مریض کا بوجھ پھر حکومت پر ہی پڑتا ہے۔ یہ ایک المیہ ہے۔ اسی لیے ہم کہتے ہیں کہ اس کو ریگولیٹ کریں۔’

خرم ہاشمی نے کہا کہ صرف ہری پور اور ایبٹ آباد کی سیلز کو دیکھتے ہوئے اگر ایک روپے ٹیکس بھی لاگو کیا جائے تو ’ماہانہ 500 ارب اضافی آمدن‘ پیدا کی جا سکتی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے مزید کہا کہ اگر بروقت نئی ٹوبیکو مصنوعات پر پاکستان میں پابندی لگائی جائے تو مستقبل میں اربوں روپے روک تھام کی مد میں خرچ کرنے سے بچائے جا سکتے ہیں۔

’اس وقت پاکستان میں صحت کا نظام پہلے ہی تنزلی کا شکار ہے۔ اس پر ٹی بی، کرونا اور دیگر وباؤں کا بوجھ ہے۔ بغیر دھوئیں والی مصنوعات پر کوئی ٹیکس نہیں۔

’آپ کیوں ایک نیا پنڈورا باکس کھول رہے ہیں جبکہ آپ کے پاس نہ اس کے تدارک کے لیے کوئی نظام ہے نہ کوئی انتظام۔ وزارت صحت کے پاس فنڈز ہی نہیں۔

’2012 میں شیشے کے خلاف جو ایکشن لیا گیا آج یہ نسبتاً کم چیلنجنگ مضمون بن گیا ہے۔ لیکن آپ (حکومت) نے ویلو کو نہیں روکا، آپ نے الیکٹرونک سگریٹ کو نہیں روکا، اور دوسری ڈیوائسز اور الیکٹرانکس کو نہیں روکا۔ اب وہ مارکیٹ میں شیشے سے زیادہ خطرہ بن گیا ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ٹوبیکو کنٹرول پر ریسرچ کرنے اور اعداد وشمار اکھٹے کرکے حکومتوں کو مثالوں سے قائل کیا جا سکتا ہے، کیونکہ اکثر حکومت کے پاس درپردہ مقاصد رکھنے والوں کی جانب سے غلط ڈیٹا  بھی پہنچایا جاتا ہے۔

کانفرنس کے اختتام پر شرکا سے تجاویز اکھٹی کی گئیں۔ ان تجاویز میں کہا گیا کہ تمباکو کی روک تھام کی مد میں ذمہ داریوں کا بوجھ کسی ایک ادارے پر نہ ڈالا جائے۔

علاوہ ازیں، متاثرہ مریضوں کے لیے بحالی سینٹرز کے قیام سمیت ٹیکس کے نفاذ، ریسرچ کی ضرورت  اور تمباکو کو مزید مہنگا کرنے کی تجویز بھی سامنے لائی گئی۔

تجاویز کی یہ فہرست کافی طویل تھی، جس کو نئی پالیسی کا حصہ بنایا جائے گا۔

تجزیہ نگاروں کا کہنا تھا کہ متعلقہ کانفرنس ایک تاریخی کانفرنس کی حیثیت رکھتا ہے، کیونکہ یہ ایک بروقت ایکشن ہے، جو ایک بڑی تبدیلی کا باعث بنے گا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی صحت