پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون بن گیا لیکن کیا عمل درآمد ہو گا؟

قومی اسمبلی سیکرٹریٹ سے جاری نوٹیفیکشن کے مطابق چیف جسٹس آف پاکستان کے سوموٹو نوٹس اور بینچ تشکیل دینے کا اختیار کم کرنے کا بل باقاعدہ قانون بن گیا۔

سپریم کورٹ آف پاکستان کی عمارت جس کے سامنے سے 25 جولائی 2022 کو پولیس اہلکار اپنا سامان اٹھائے گزر رہے ہیں (اے ایف پی فائل)

قومی اسمبلی سیکرٹریٹ سے جمعے کو جاری ہونے والے نوٹیفیکشن کے مطابق چیف جسٹس کے از خود نوٹس اور بینچ تشکیل دینے کا اختیار کم کرنے کا بل باقاعدہ قانون بن گیا۔

چند روز قبل سپریم کورٹ نے اس بل پر تاحکم ثانی عمل درآمد کرنے سے روک دیا تھا۔ تاہم آج قومی اسمبلی سیکرٹریٹ سے جاری کردہ نوٹیفیکیشن کے مطابق سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023 باقاعدہ قانون بن گیا ہے۔

قومی اسمبلی سیکرٹریٹ نے پرنٹنگ کارپوریشن کو ’قانون اور قواعد وضوابط کی روشنی میں تمام تقاضے پورے‘ کر کے گزٹ نوٹیفیکیشن کا حکم دیا۔

یہ نوٹیفیکیشن ایک ایسے وقت پر جاری ہوا ہے جب سپریم کورٹ نے 13 اپریل کو اس بل پر تاحکم ثانی عمل درآمد کرنے سے روک دیا تھا۔

ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کے اس بل کے خلاف درخواستوں پر تحریری فیصلے میں کہا گیا تھا کہ ’ایکٹ بادی النظر میں عدلیہ کی آزادی اور اندرونی معاملات میں مداخلت ہے۔

’سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ پر تاحکم ثانی کسی بھی طریقے سے عمل درآمد نہیں ہو گا۔‘

فیصلے کے مطابق ’صدر مملکت ایکٹ پر دستخط کریں یا نہ کریں، دونوں صورتوں میں یہ تاحکم ثانی نافذ العمل نہیں ہو گا۔ اس دوران عبوری حکم نامہ جاری کرنا ضروری ہے لہٰذا سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ پر پیشگی حکم امتناعی جاری کر رہی ہے۔‘

صدر مملکت عارف علوی نے اس بل کو دوسری مرتبہ دستخط کے بغیر واپس بھجوا دیا تھا۔

قومی اسمبلی کے ترجمان نے کہا ہے کہ’ سپریم کورٹ پریکٹس اور پروسیجر بل اب قانون کی شکل میں نافذ ہو چکا ہے۔‘

اس صورت حال میں انڈپینڈنٹ اردو نے یہ جاننے کی کوشش ہے کہ کیا سپریم کورٹ کے حکم کے باوجود بل قانون قانون کی شکل اختیار کر سکتا ہے اور اس قانون پر عمل درآمد ممکن بھی ہے یا نہیں؟

اور کیا یہ تاریخ میں پہلی مرتبہ ہے یا سپریم کورٹ اس سے قبل بھی کسی بل کے قانون کی شکل اختیار کرنے سے پہلے ہی حکم امتناعی جاری کر چکا ہے؟

’اس قانون پر کم از کم دو مئی تک عمل درآمد نہیں ہو سکتا‘

ماہر قانون وقاص میر نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ قانون تو بن گیا ہے لیکن اس پر عمل درآمد نہیں ہو سکتا کیونکہ سپریم کورٹ 13 اپریل کو اپنے فیصلے میں کہہ چکی ہے کہ غیر معمولی حالات کی روشنی میں عدالت نے فیصلہ سناتے ہوئے حکم امتناعی جاری کیا۔

’عدالت نے اس وقت فیصلہ دیا جب صرف پارلیمان نے اسے بل کی صورت میں منظور کیا تھا اور ابھی صدر نے منظوری نہیں دی تھی۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’یہ تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے کہ سپریم کورٹ نے آئین کے آرٹیکل 184-تین کے اختیارات استعمال کرتے ہوئے ایک بل کے بارے میں کہا کہ جس دن یہ بل قانون بنے گا اس دن یہ قانون معطل ہو جائے گا اور اس پر سپریم کورٹ کے حکم امتناعی تبدیل نہ ہونے تک عمل درآمد نہیں ہو گا۔

’اس کیس کی اب دوبارہ سماعت دو مئی کو ہونی ہے۔ اب دیکھتے ہیں کہ اس پر عدالت کیا حکم جاری کرتی ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے کہا کہ ’سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں اس قانون سے متعلق یہ بھی لکھا کہ اس قانون کی زبان میں ایک سنگین اور غیر معمولی مداخلت نظر آ رہی ہے۔ اس لیے عدالت نے یہ بھی کہا کہ جس دن بھی یہ قانون بنے اس وقت بھی اس کا اثر نہیں ہو گا۔‘

وقاص میر کے مطابق: ’جب تک سپریم کورٹ اپنا فیصلہ تبدیل نہیں کرتی جو وہ دو مئی، 2023 تک نہیں کرے گی، تب تک اس قانون پر عمل درآمد نہیں ہو گا۔

ماہرقانون عبدالمعیز جعفری نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ’سپریم کورٹ نے جو کچھ کیا وہ غیر معمولی ہے مگر یہ عدالت پچھلے سال آرٹیکل 63 اے کے فیصلے کے بعد سے کرتی آ رہی ہے وہ تمام چیزیں غیر معمولی ہی رہی ہیں۔‘

ان کے مطابق ’اس معاملے کو سپریم کورٹ کے اندر اور باہر ہونے والی سیاست کی نظر سے دیکھنا ضروری ہے، تب بات سمجھ آتی ہے کہ عدالت اس نہج تک کیوں پہنچی ہے کہ قومی اسمبلی اس بل پر قانون سازی کی ہمت کی؟ اور اس قانون سازی کی ملک کی تمام بار کونسلز نے حمایت کیوں کی؟‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’سپریم کورٹ نے، اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ اب اس بل کی قانونی شکل اختیار کرنے میں وقت کے علاوہ اور کوئی قباحت باقی نہیں ہے، اس دلیل کو بنیاد بنا کر ایک شرطیہ حکم امتناعی جاری کیا جو مستقبل میں زیر اثر ہونا تھا اور جیسے ہی یہ قانون بن گیا تو سپریم کورٹ کا حکم امتناعی عمل میں آیا۔ تاریخ میں ایسا کچھ پہلی مرتبہ ہوا ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان