جمعرات کو سپریم کورٹ میں پورے ملک میں ایک ساتھ انتخابات کی درخواست پر سماعت کے دوران چیف جسٹس عطا بندیال نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کر کے کہا کہ ’آپ سب نے اکٹھے انتخابات کی تائید کی تھی۔ یہ کوئی حکم نہیں مشورہ ہے کہ اگر آپ کوئی تاریخ طے کر لیتے ہیں تو ٹھیک ہے، اور اگر طے نہیں کرتے تو جیسا ہے ویسا چلے گا۔‘
جمعرات کو چیف جسٹس عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ، جس میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر بھی شامل ہیں، نے انتخابات میں تاخیر کے کیس کی سماعت کی۔ سماعت کے دوران چیف جسٹس نے کہا کہ ’ہم کوئی ٹائم لائن نہیں دے رہے، اس معاملے پر حکم نامہ جاری کریں گے۔‘
سماعت کے آغاز میں اٹارنی جنرل نے کہا کہ ابتدائی طور پر سیاسی جماعتوں نے 26 اپریل کو ملنے پر اتفاق کیا جس کے بعد ایاز صادق اور خواجہ سعد رفیق نے اسد قیصر سے ملاقات کی۔
گذشتہ روز اتحادی جماعتوں کا اجلاس ہوا تھا جس میں مذاکرات کے بارے میں دو جماعتوں نے تحفظات کا اظہار کیا۔ اسی حوالے سے چیئرمین سینیٹ راجہ پرویز اشرف نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے نام خط بھی لکھا تھا۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے گذشتہ سماعت کا احوال سناتے ہوئے کہا کہ ان کے چیمبر میں شام چار بجے فاروق نائیک سے ملاقات ہوئی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ’چیئرمین سینیٹ نہ آپ کے اور نہ دوسرے فریفین کے نمائندے نہیں ہیں، کسٹوڈین آف دا ہاؤس ہیں۔ ہم زور نہیں دے رہے بلکہ آئین کو نافذ کر رہے ہیں۔ ہمیں وضاحت نہیں حل چاہیے، ہمیں اعتماد چاہیے۔‘
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ’چیئرمین سینیٹ کس کیپسٹی میں کام کر رہے ہیں؟‘ اس پر وکیل فاروق نائیک نے کہا کہ سینیٹ وہ واحد پلیٹ فارم ہے جہاں تمام سیاسی جماعتوں کی نمائندگی موجود ہے، 10 رکنی کمیٹی اتفاق رائے پر پہنچے گی۔
’حکومت کی جانب سے کوئی رابطہ نہیں کیا گیا‘
اس کے بعد پاکستان تحریک انصاف کے رہنما شاہ محمود قریشی روسٹرم پر آئے اور چیف جسٹس کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’آپ نے ہمیں سیاسی اتفاق رائے کا موقع فراہم کیا۔ پاکستان پیپلز پارٹی سے فاروق نائیک اور قمر زمان کائرہ جبکہ مسلم لیگ ن سے ایاز صادق اور خواجہ سعد رفیق آئے لیکن جمعیت علمائے اسلام مذاکرات کے لیے تیار نہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ان کے پاس کاغذ موجود ہے جو میڈیا سے نہیں لیکن عدالت سے شیئر کیا جا سکتا ہے جس میں موجودہ صورت حال پر غور کیا گیا ہے۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ’اس حوالے سے حکومت کی جانب سے کوئی رابطہ نہیں کیا گیا، اسد قیصر سے غیر رسمی رابطہ کیا گیا۔ اسد قیصر نے انہیں بتایا کہ اس معاملے پر شاہ محمود قریشی سے رابطہ کریں جو تاحال نہیں ہوا۔ دوسری جانب صادق سنجرانی نے رابطہ کر کے کہا کہ وزیر اعظم نے رابطے کا اظہار کیا ہے، میں نے انہیں کہا کہ یہ non-starter ہے۔‘
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ان کی نظر میں یہ تاخیری حربے ہیں، ان سے رابطہ نہ کر کے قومی اسمبلی کا اجلاس بلایا گیا جو پارلیمانی قوانین 31 اور 68 کی خلاف ورزی ہے۔ جس پر فاروق نائک نے جواب دیا کہ وہ ’کوئی سیاسی بیان نہیں دینا چاہتے، ہم خود مذاکرات چاہتے ہیں۔‘
چیف جسٹس نے کہا، ’اگر آپ کوئی تاریخ طے کر لیتے ہیں تو ٹھیک ہے، اور طے نہیں کرتے تو جیسا ہے ویسا چلے گا۔‘
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’آپ سب نے اکٹھے انتخابات کی تائید کی تھی۔ یہ کوئی حکم نہیں مشورہ ہے کہ اگر آپ کوئی تاریخ طے کر لیتے ہیں تو ٹھیک ہے، اور اگر طے نہیں کرتے تو جیسا ہے ویسا چلے گا۔ ہمیں ایک سہولت کار مقرر کرنا ہو گا جو سنجیدہ ہو۔‘
اٹارنی جنرل نے کہا کہ آج ایک اجلاس کا اہتمام کیا جا سکتا ہے۔ جس کے بعد فواد چوہدری روسٹرم پر آئے اور چیف جسٹس کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’سپریم کورٹ آئین کو از سرِ نو تحریر نہیں کر سکتی۔ مسئلہ ابھی کا نہیں مستقبل کا ہے۔‘
سینیٹر علی ظفر نے کہا ہم ان کے ساتھ بیٹھ جائیں گے۔
آج سماعت سے قبل کی صورت حال
چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل تین رکنی بینچ نے ملک بھر میں ایک ساتھ انتخابات منعقد کرانے کے معاملے میں حکومت کو 27 اپریل تک 21 ارب روپے فراہم کرنے کا حکم دیا تھا۔
اس مقدمے کی 20 اپریل 2023 کو ہونے والی آخری سماعت کے بعد پانچ صفحات پر مشتمل تحریری حکم نامہ بھی جاری کر دیا گیا تھا۔
تحریری حکم نامے میں بتایا گیا تھا کہ فاروق ایچ نائیک اور اٹارنی جنرل نے چیمبر ملاقات کی، ملاقات میں حکومت اور تحریک انصاف کے رہنما کے درمیان رابطے کا بتایا گیا۔
حکم نامے میں کہا گیا کہ ’عید کی چھٹیوں کے باعث رابطوں میں توقف کیا جا رہا ہے کیوں کہ اکثر سیاسی رہنما عید کے باعث اپنے آبائی علاقوں میں ہیں۔‘
اس سے قبل سماعت کے دوران سیاسی قائدین کو عدالت میں دیکھ کر چیف جسٹس نے کہا تھا کہ ’سیاسی قائدین کے تشریف لانے پر شکرگزار ہوں، صف اول کی قیادت کا عدالت آنا اعزاز ہے، قوم میں اضطراب ہے، قیادت مسئلہ حل کرے تو سکون ہو جائے گا، عدالت حکم دے تو پیچیدگیاں بنتی ہیں، سیاسی قائدین افہام و تفہیم سے مسئلہ حل کریں تو برکت ہو گی۔‘
چیف جسٹس نے کہا تھا کہ ’سراج الحق کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں، آپ نے نیک کام شروع کیا اللہ اس میں برکت ڈالے، عدالت اس نیک کام میں اپنا حصہ ڈالے گی۔‘
امیر جماعت سراج الحق نے عدالت میں کہا کہ ’قوم کی جانب سے عدالت کا مشکور ہوں، اللہ کا حکم ہے اجتماعی معاملات میں مذاکرات کرو، مذاکرات کرنا آپشن نہیں اللہ کا حکم ہے، آئین اتفاق رائے کی بنیاد پر وجود میں آیا ہے، آج بھی آئین ملک کو بچا سکتا ہے، آئین کی حفاظت کرنا ملک کی حفاظت کرنا ہے، امریکہ ایران اور سعودی عرب اب پاکستان میں دلچسپی نہیں لے رہے، آج بھی آئین ملک کو بچا سکتا ہے، اپنا گھر خود سیاستدانوں نے ٹھیک کرنا ہے۔
عدالت نے سیاسی جماعتوں سے کہا تھا کہ وہ 26 اپریل کو مذاکرات کریں اور سٹیک ہولڈرز کے درمیان اتفاق رائے پیدا ہونے کے بعد 27 اپریل (آج) تک جواب جمع کروائیں۔
سیاسی جماعتوں سے کہا گیا تھا کہ وہ اس معاملے پر جلد فیصلہ کریں کیونکہ انتخابات کے لیے 14 مئی کی تاریخ دی جا چکی ہے اور اس کی پابندی کا حکم تمام حکام پر لازم ہے۔
وزارت دفاع کی درخواست کا پس منظر
18 اپریل کو وزارت دفاع نے اپنی درخواست میں عدالت عظمیٰ سے استدعا کی تھی کہ قومی اور سندھ اور بلوچستان اسمبلیوں کی مدت پوری ہونے پر قومی اور تمام صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ایک ساتھ کرانے کی ہدایت جاری کی جائے۔
اس درخواست میں کہا گیا تھا کہ ’مسلح افواج کے ارکان کو انتخابی ڈیوٹی کے لیے تیار کرنے کے لیے خاصہ وقت درکار ہے، اس لیے کہ فورس کا بڑا حصہ کافی عرصے سے آپریشنز میں مصروف ہے۔
19 اپریل کو چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے وزارت دفاع کی جانب سے ملک کی تمام اسمبلیوں کے انتخابات ایک ساتھ کرانے کی درخواست پر سماعت کی اور درخواست کو ناقابل سماعت قرار دیتے ہوئے اگلے روز پیشی پر تمام سیاسی رہنماؤں کو طلب کر لیا تھا۔
عدالت کی جانب سے جاری حکم نامے میں کہا گیا تھا کہ اٹارنی جنرل کو اس بات کی نشاندہی کی گئی تھی کہ درخواست پر غور نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی ریلیف دیا جا سکتا ہے کیونکہ اس معاملے کا فیصلہ عدالت کے حتمی فیصلے سے ہو چکا تھا اور اس طرح اس معاملے کو ناقابل سماعت قرار دے کر نمٹا دیا گیا تھا۔
حکومت کی جانب سے انتخابات کے لیے فنڈز کے اجرا میں ہیش کردہ عذر کے حوالے سے عدالت نے کہا کہ یہ بیانیہ قابل قبول نہیں کہ وفاقی حکومت کے پاس ہمیشہ عام انتخابات کے لیے 21 ارب روپے کے اخراجات کی اجازت دینے کے لیے ضروری آئینی اختیار اور طاقت نہیں ہوتی۔
حکم نامے میں الیکشن کمیشن کی جانب سے انتخابات کی آٹھ اکتوبر کی تاریخ بحال کرنے کی استدعا کو بھی ناقابل سماعت قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا گیا تھا۔
انتخابات کے لیے فنڈز کے اجرا کا معاملہ
عدالت عظمیٰ نے حکومت کو پنجاب اور خیبرپختونخوا میں 10 اپریل تک انتخابات کرانے کے لیے الیکشن کمیشن کو 21 ارب روپے فراہم کرنے کا حکم دیا تھا اور الیکشن کمیشن کو ہدایت کی تھی کہ وہ حکومت کی جانب سے حکم کی تعمیل سے متعلق رپورٹ 11 اپریل کو فراہم کرے۔
تاہم حکومت نے معاملہ پارلیمنٹ کو بھجوایا جس نے عدالت کے احکامات کی خلاف ورزی کی اور فنڈز جاری کرنے سے انکار کر دیا تھا۔
لیکن الیکشن کمیشن نے سربمہر لفافے میں سپریم کورٹ کو اپنی رپورٹ پیش کر دی تھی اور پنجاب اسمبلی کے انتخاب کے لیے شیّول بھی جاری کر دیا ہے۔
قومی اسمبلی کے اجلاس میں کیا ہوا؟
گذشتہ روز یعنی آج کی سماعت سے ایک روز قبل حکمراں اتحاد میں شامل جماعتوں رہنماؤں کے اجلاس اور قومی اسمبلی کے اجلاس کے بعد سپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف نے ’پارلیمان کے اختیارات میں مداخلت‘ کے عنوان سے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کو ایک خط بھی لکھا ہے۔
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کو بدھ کو لکھا گیا خط پانچ صفحات پر مشتمل ہے۔
خط کے متن میں سپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف کا کہنا ہے کہ ’قومی اسمبلی کے سپیکر اور ایوان کے محافظ کے طور پر آپ کو خط لکھ رہا ہوں۔‘
سپیکر قومی اسبملی نے لکھا کہ ’میڈیا میں رپورٹ ہونے والے سپریم کورٹ کے بعض حالیہ فیصلوں اور بعض محترم جج صاحبان کے تبصروں پر عوامی نمائندوں کے اضطراب اور تشویش کے اظہار کے طور پر یہ خط لکھ رہا ہوں۔‘
خط میں لکھا گیا ہے کہ ’قومی اسمبلی شدت سے محسوس کرتی ہے کہ حالیہ فیصلے قومی اسمبلی کے دو بنیادی آئینی فرائض میں مداخلت ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پانچ صفحات پر مشتمل خط میں کہا گیا ہے کہ 14 اور 19 اپریل کو تین رکنی بینچ نے سٹیٹ بینک اور وزارت خزانہ کو الیکشن کمیشن کو 21 ارب جاری کرنے کے حکم دیے۔ قومی اسمبلی کی طرف سے رقم دینے کی سخت ممانعت کے باوجود یہ حکم جاری کیے گئے۔
’افسوس ہے کہ تین رکنی بینچ نے قومی اسمبلی کے آئینی عمل اور استحقاق کو مکمل نظرانداز کیا۔ ظاہر ہوتا ہے کہ تین رکنی بینچ نے عجلت میں حکم دیا۔‘
خط میں مزید کہا گیا ہے کہ ’تین رکنی بینچ نے وفاقی حکومت کو 21 ارب جاری کرنے کا عام معمول سے ہٹ کر حکم دیا۔‘
سپیکر قومی اسمبلی کی جانب سے لکھے گئے خط میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’تین رکنی بینچ نے رقم جاری نہ ہونے پر وفاقی حکومت کو سنگین نتائج کی دھمکی دی۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ یہ قومی اسمبلی کو تابع بنانے کی کوشش ہے۔‘
خط میں کہا گیا ہے کہ ’قومی اسمبلی واضح ہے کہ یہ حکم ناقابل قبول اور قومی اسمبلی کے اختیار، استحقاق اور دائرہ کار کی توہین ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ایوان کی رائے آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ رقم کے اجرا پر تنازعہ قومی مفاد کے لیے نہایت تباہ کن ہے۔
’قومی اسمبلی کی طرف سے یقین دلاتا ہوں کہ آئندہ مالی سال کے بجٹ میں عام انتخابات کے لیے رقم رکھی جائے گی۔‘
پاکستان تحریک انصاف نے حکومت سے مذاکرات کے لیے کمیٹی بنا دی
پاکستان تحریک انصاف کے رہنما فواد چوہدری نے نامہ نگار قرۃ العین شیرازی سے بات کرتے ہوئے تصدیق کی ہے کہ ’چئیرمین پی ٹی آئی عمران خان نے حکومت کے ساتھ مذاکرات کے لیے دو رکنی کمیٹی تشکیل دی ہے جس میں شاہ محمود قریشی اور فواد چوہدری شامل ہیں۔‘
In best interests of our country and people, we were willing to sit down for talks, to develop political consensus within ambit of the Constitution. But clearly this govt is not sincere. @PTIofficial will continue to follow constitution & Supreme court judgement. Elections, now!
— Shah Mahmood Qureshi (@SMQureshiPTI) April 26, 2023
عمران خان کو کامیاب تحریک عدم اعتماد کے بعد اقتدار سے ہٹائے جانے کے بعد یہ پہلا موقع ہے جب پی ٹی آئی نے حکومت سے مذاکرات کے لیے کوئی پیشرفت کی ہے اور اس سلسلے میں مذاکراتی کمیٹی بنائی ہے۔