ملیے میانمار میں ’اژدہوں کی شہزادی‘ سے

شو لِی جنہیں میانمار (برما) میں اژدہوں کی شہزادی کے نام سے جانا جاتا ہے، 2016 سے خطرناک سانپوں کو پکڑ کر جنگلوں میں چھوڑ رہی ہیں۔

صبح چار بجے میانمار کے شہر رنگون میں بدھ مت عبادت گاہ کے باہر شوے لی اور ان کی ٹیم بل کھاتے 30 اژدہوں کو چاول کی پرانی بوریوں میں ڈال کر گاڑی میں لاد رہی ہے۔

یہ میانمار میں سانپوں کو پکڑنے والے سرکردہ سکواڈ کی زندگی میں ایک اور دن تھا۔ یہ ٹیم آبادی میں آنے والے اژدہوں اور  کوبرا سانپوں کو پکڑ کر ان قدرتی ماحول میں واپس لے جاتی ہے کیوں کہ ان سانپوں کی انسانوں کے درمیان موجودگی خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔

بوریوں میں بھرے ہوئے سانپ تین ماہ میں کی گئی محنت کا نتیجہ تھے جنہیں رنگون کے آس پاس کے گھروں اور اپارٹمنٹس سے پکڑا گیا اور بدھ عبادت گاہ میں اس وقت تک ان کی دیکھ بھال کی گئی جب تک کہ وہ جنگل میں چھوڑے جانے کے قابل نہیں ہو گئے۔

شوے لی نے اے ایف پی کو بتایا کہ ’مجھے سانپوں سے محبت ہے کیوں کہ وہ دھوکہ نہیں دیتے۔‘ وہ سانپوں کے لیے بنائی گئی اپنی ٹیم کے زیر انتظام پناہ میں موجود تھیں اور انہوں نے اپنے جسم پر اژدہا کو لپیٹ رکھا تھا۔

’اگر آپ ان کی فطرت کو سمجھتے ہیں تو وہ پیارے ہیں۔‘

لی اس کے سرپرست بھاری بھرکم 40 سالہ کو ٹو آنگ کہتے ہیں کہ 2016 میں جب سے انہوں سانپ پکڑنا شروع کیے وہ  سات بار ہسپتال میں جا چکے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ سانپوں کو پکڑنے والا کسی بھی شخص کو تیز اور چوکنا ہونا ہوتا ہے۔
 
ان کے بقول: ’ہم جہاں کہیں کوئی زہرہلا سانپ پکڑتے ہیں تو 90 فیصد امکانا ہوتا ہے کہ وہ مجھے ڈس لے گا‘

ان کی ٹیم جسے شوے میتا کہا جاتا ہے برمی زبان میں اس کا مطلب ’سنہری محبت‘ ہے۔ ٹیم میں 12 کے لگ بھگ لوگ شامل ہیں اور انہوں نے ینگون کے اردگرد کے علاقے سے گذشتہ سال تقریباً 200 سانپ پکڑے۔

اس جوڑے کی سانپوں کو سنک کے پائپ سے نکالنےاور چھت کے کناروں سے پکڑنے کی سوشل میڈیا پر پوسٹ کی گئی ویڈیوز کی وجہ سے انہیں مقامی میڈیا نے ’سانپوں کا شہزادہ اور شہزادی‘ کا خطاب دیا ہے۔

سانپ تلاش کرنا

ٹیم کو دن کے وقت کام کرنا ہوتا ہے اور وہ اپنی ارغوانی رنگ کی سانپ ’ایمبولینس‘ کو چلانے کے پیٹرول سے لے کر حفاظتی سامان تک ہر چیز کے لیے عطیات پر انحصار کرتی ہے۔

وہ زیادہ تر برمی اژدہا کو پکڑتے ہیں جو غیر زہریلا سانپ ہوتا ہے۔ وہ عام طور پر تقریباً پانچ میٹر (16 فٹ) لمبا ہوتا ہے اور چوہوں اور دوسرے چھوٹے ممالیہ جانوروں کو شکار کرنے کے لیے ان کے گرد لپٹ جاتا ہے جس سے ان کی موت واقع ہو جاتی ہے۔

کوبرا اور دھاری دار سانپ ینگون کے اپارٹمنٹس میں رہنا شروع کر دیتے ہیں۔ یہ چالاک سانپ ہوتے ہیں۔ ان کا زہر مہلک ثابت ہو سکتا ہے۔

عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق 2014 میں میانمار میں 15000 سے زیادہ افراد کو سانپوں نے ڈسا۔

ان میں سے 1250 لوگ موت کے منہ میں چلے گئے۔ سانپ کے کاٹے سے اموات کی یہ شرح بہت سے دوسرے ممالک سے زیادہ ہے جس کی بڑی وجہ میانمار میں صحت کی دیکھ بھال کے نظام کی خرابی اور زہریلے ادویات تک آسانی سے رسائی نہ ہونا ہے۔

خطرہ  ٹیم کے کام سے کبھی دور نہیں ہوتا۔ مارچ میں ٹیم نے ینگون کے ایک گھر کے نیچے کوبرا سانپ کے کئی ٹھکانے ختم کرنے کی کوشش میں دو دن گزارے۔ ٹیم نے بنیادوں میں کھدائی کی جس کے دوران  اکثر اوقات سانپوں نے اس کی طرف زہر تھوک کر اسے کام سے روکا.

سانپ پکڑنے والی ٹیم کے 31 سالہ رکن کو یے مِن جنہوں نے جسم پر ٹیٹو بنوا رکھے ہیں سانپ کے ٹھکانے تک پہنچنے کے کام میں وقفہ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ سانپ کے ٹھکانے سے بدبو آتی ہے۔

کو ٹو آنگ کے مطابق یہ پہچاننا کہ یہ کس قسم کی بدبو ہے، ایک اور ہنر ہے جو سانپ پکڑنے والے کو سیکھنا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ ’ہمیں ان کی بو سے واقف ہونا ضروری ہے۔ سانپوں کو نکالنے سے پہلے ان کی نسل کی شناخت کرنا پڑتا ہے۔‘ ان کا کہنا تھا کہ کوبرا سانپ سے سڑی ہوئی چیز کی بدبو آتی ہے۔ ’لیکن اژدہے کی بو اس سے کہیں زیادہ تیز ہوتی ہے۔ بعض اوقات ہم اسے ایمبولینس میں لاتے وقت بھی الٹی کر دیتے ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ہمدری کا اظہار

اپنی آن لائن ویڈیوز اور بڑھتی ہوئی شہرت کی بدولت شوے میتا ٹیم کو امید ہے کہ وہ لوگوں کو پھسلتے اور رینگتے سانپوں کے لیے زیادہ ہمدردی کا مظاہرہ کرنے کی ترغیب دے پائےگی۔ خاص طور پر کسی کے سانپ ان کے گھر میں گھس آنے کی صورت میں۔

شوے لی کے بقول: ’ماضی میں سانپ جہاں کہیں ملتے لوگ انہیں مار دیا کرتے تھے۔ لیکن اب لوگوں کے پاس زیادہ علم ہے اور وہ جانتے ہیں کہ ہم سانپوں کو دوبارہ جنگل میں چھوڑ سکتے ہیں۔ اس لیے وہ ہمیں ان کو پکڑ کر لے جانے کے لیے بلاتے ہیں۔‘

پکڑے گئے سانپوں کو قریبی بدھ عبادت گاہ میں اس وقت تک زیر نگرانی رکھا جاتا ہے جب تک کہ وہ تعداد میں زیادہ نہ ہو جائیں تا کہ انہیں جنگل میں لے جا کر چھوڑ دیا جائے۔

مارچ کے آخر میں ٹیم نے اس مقصد کے لیے ینگون کے شمال میں 150 کلومیٹر (90 میل) دور باگو یوما کی پہاڑیوں کی دوسری طرف کا سفر کیا۔

ٹیم کے ہر رکن نے چھوڑنے کے لیے مناسب جگہ پہنچنے تک ایک ایک اژدہا کو تھیلے میں ڈال کر اسے کاندھے سے لٹکائے رکھا۔

شوے لی نے ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کئی ہفتے پنجرے میں بند رہنے اور پانچ گھنٹے کے سفرکے بعد ہی حیرت چند اژدہوں کو سفر جاری رکھنے کے لیے تھوڑا سا حوصلہ دلانے کی ضرورت ہوتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’کسی کو بھی قیدی ہونے کا احساس پسند نہیں۔‘ آخری سانپ کے بل کھاتے ہوئے جانے کے بعد انہوں نے کہا کہ امید ہے کہ یہ سانپ طویل عرصے تک انسانی دنیا میں واپس نہیں آئیں گے۔
 
’میں سانپوں کو آزاد کر کے خوش ہوں۔ ایک دوسرے سے ہمدردی کے نکتہ نظر کے اعتبار سے یہ اطمینان بخش کام ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ملٹی میڈیا