’اپنی بوڑھی ماں کو عید مبارک بھی نہ کہہ سکا‘: ایک کشمیری کی کہانی

آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بعد  بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں کرفیو نافذ اور مواصلاتی نظام معطل ہے، جس کے باعث ایل او سی کے آرپار مقیم خاندان ایک دوسرے کو عید الاضحیٰ کی مبارک باد بھی نہ دے سکے۔

اشرف 90 کی دہائی میں پاکستان کے زیر انتظام کشمیر آئے، یہیں شادی کی اور اِدھر ہی آباد ہوگئے جبکہ ان کے والدین، اکلوتی بہن اور چار بھائی سری نگر کے علاقے سوپور میں ہی رہے (ویڈیو سکرین گریب)

بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بعد وہاں سخت کرفیو نافذ ہے۔ مواصلاتی نظام چار اگست کی رات سے بند ہے اور آج عید الاضحیٰ کے موقع پر لائن آف کنٹرول (ایل او سی) کے آر پار مقیم بہت سے خاندانوں کے آپس میں رابطے نہ ہوسکے اور نہ ہی وہ ایک دوسرے کو عید کی مبارک باد دے سکے۔

سری نگر سے تعلق رکھنے والے اشرف بھی ایسے ہی ایک شہری ہیں۔ وہ 90 کی دہائی میں پاکستان کے زیر انتظام کشمیر آئے، یہیں شادی کی اور اِدھر ہی آباد ہوگئے جبکہ ان کے والدین، اکلوتی بہن اور چار بھائی سری نگر کے علاقے سوپور میں ہی رہے۔ جب بھی موقع ملتا اشرف ویزہ لے کر سری نگر جاتے اور گھر والوں سے مل آتے۔

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں اشرف نے بتایا کہ ان کے والد اب حیات نہیں رہے اور والدہ سے آخری ملاقات 2015 میں اُس وقت ہوئی تھی جب وہ میرپور  آئی تھیں۔

انہوں نے بتایا کہ والدہ نے سری نگر میں پاسپورٹ حاصل کرنے کے لیے چار سال مقدمہ لڑا، پھر عدالتی حکم پر دو سال کی مدت کے ساتھ انہیں پاسپورٹ دیا گیا لیکن اب بھارتی انتظامیہ کی جانب سے دوبارہ پاسپورٹ جاری ہی نہیں کیے جارہے۔

اشرف کے مطابق ’بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں مسلم آبادی کے لیے پاسپورٹ حاصل کرنا بہت مشکل ہے۔ صرف اُن لوگوں کو پاسپورٹ جاری کیے جاتے ہیں جن کے بارے میں انتظامیہ کو یقین ہو کہ یہ تحریک پسند نہیں ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے بتایا کہ ان کی اپنی والدہ سے آخری مرتبہ بات دو ہفتے پہلے ہوئی تھی۔ اس کے بعد حالات کشیدہ ہونا شروع ہو گئے اور رابطہ مکمل طور پر منقطع ہوگیا۔

اشرف نے نہایت افسردگی سے کہا کہ ’عید پر بھی اپنی بوڑھی والدہ کو عید مبارک نہیں کہہ سکا اور نہ ہی اکلوتی بہن سے بات ہوئی۔‘

اشرف کے بڑے بھائی بھارتی فوج کے ہاتھوں ہلاک ہو چکے ہیں۔ 

ان کا کہنا تھا کہ آرٹیکل 370 ختم کردیا گیا ہے لیکن یہ کسی کشمیری کے لیے قابل قبول نہیں ہے۔ بقول اشرف: ’میرا اُس علاقے سے تعلق ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ جس دن کرفیو ختم ہوگا ایک بہت بڑا طوفانی احتجاج ہوگا۔ لوگ چپ کرکے نہیں بیٹھیں گے۔‘

انہوں نے مزید بتایا کہ ’آج کسی سے تھوڑی دیر کے لیے رابطہ ہوا تو علم ہوا کہ بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں عید کی نماز کے وقت کرفیو میں تھوڑی نرمی کی گئی تو لوگ احتجاج کے لیے گھروں سے نکلنا شروع ہو گئے جس کے باعث دوبارہ کرفیو لگا دیا گیا اور کوئی عید کی نماز بھی ادا نہیں کر سکا۔‘

یہ کہانی صرف اشرف کی نہیں بلکہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں بہت سے ایسے خاندان آباد ہیں، جن کے رشتے دار سرحد کے اُس پار بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں آباد ہیں۔ ان لوگوں کا چار اگست سے اپنے رشتہ داروں سے رابطہ منقطع ہے اور وہ نہیں جانتے کہ وہ وہاں کس حال میں ہیں۔

ٹیلی فون لائنیں بند ہونے کی وجہ سے بھارت میں موجود کشمیری طلبہ اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں موجود خاندان اپنے پیاروں کی آواز سننے کے لیے ترس گئے ہیں۔

بھارت میں مقیم کشمیری طالبہ اور سرگرم کارکن شہلا رشید نے اپنے سوشل میڈیا پیغام میں لکھا ہے کہ ’یہ عید کیسے ہو سکتی ہے اگر میں عید کی صبح اپنی ماں کو عید کی مبارک باد نہ دے سکوں؟‘

’بات کریں گے تو خفیہ ادارے کے لوگ پوچھ گچھ کریں گے‘

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں موجود دیگر خاندانوں سے جب انڈپینڈنٹ اردو نے رابطہ کیا اور ان سے پوچھا کہ عید پر سرحد کے اُس پار اپنے رشتہ داروں سے بات ہوئی تو انہوں نے کہا کہ ’آپ سے بات تو کرلیں لیکن پھر بعد میں خفیہ اداروں کے لوگ پوچھ گچھ کرتے ہیں۔‘

رضا (فرضی نام) نے بتایا کہ ان کا تعلق بھی بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے راجوری سے ہے لیکن انہیں آج تک کسی ادارے کے اہلکار نے تنگ نہیں کیا۔ لیکن ان کے گھر کے قریب سری نگر سے تعلق رکھنے والے خاندان کے ایک لڑکے کو شک کی بنیاد پر خفیہ ادارے کے اہلکار کچھ دن کے لیے لے گئے تھے لیکن پھر تحقیقات کے بعد چھوڑ دیا تھا۔

رضا نے بتایا کہ ’اسی وجہ سے سرحد پار سے آئے لوگ میڈیا پر آنے سے اجتناب کرتے ہیں تاکہ کوئی انہیں تنگ نہ کرے۔‘ انہوں نے مزید بتایا کہ ’صرف یہ ہی نہیں بلکہ جب یہاں سے ہمارے رشہ دار ہم سے ملاقات کے بعد واپس بھارت کے زیر انتظام کشمیر جاتے ہیں تو اُن سے وہاں بھی ایسی ہی پوچھ گچھ کی جاتی ہے۔‘

اس حوالے سے جب سیکیورٹی ادارے کے ایک عہدیدار سے رابطہ کیا گیا تو اُنہوں نے موقف اپنایا کہ ’سب تو نہیں لیکن بعض اوقات کچھ لوگوں کے مشکوک رابطے ثابت ہوتے ہیں، جس پر تحقیقات کرنی پڑتی ہیں۔ یہ ہمارا کام ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ خفیہ ادارے ہر ایک کو تنگ کرتے ہیں۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا