طلبہ احتجاج کے باعث تربت یونیورسٹی ’ناگزیر وجوہات‘ پر بند

بلوچستان کے شہر تربت کی یونیورسٹی انتظامیہ کے مطابق ادارے کی بندش کے باوجود انتظامی اور تدریسی عملہ اپنے فرائض انجام دیتا رہے گا۔

جمعرات کو جاری کیے جانے والے بیان میں کہا گیا کہ یونیورسٹی کے ساتھ ہاسٹل بھی بند رہے گا(تصویر: یاسر بلوچ)

بلوچستان کے ضلع کیچ کے شہر تربت میں واقع تربت یونیورسٹی کی انتظامیہ نے ادارے کو بند کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ ’ناگزیر وجوہات‘ کی بنا پر یونیورسٹی بند کر دی گئی ہے تاہم انتظامی عملہ اور تدریسی عملہ اپنے فرائض انجام دیتا رہے گا۔

جمعرات کو جاری کیے جانے والے بیان میں کہا گیا کہ یونیورسٹی کے ساتھ ہاسٹل بھی بند رہے گا۔

یونیورسٹی انتظامیہ کے اس اعلان پر سوشل میڈیا پر دیے جانے والے ردعمل میں تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے۔

انڈپینڈنٹ اردو نے یونیورسٹی بندش کی وجوہات جاننے کے لیے انتظامیہ سے رابطہ کیا تو انتظامیہ کا کہنا تھا کہ وہ اس حوالے سے تفصیلی وضاحت جاری کریں گے۔

بعد ازاں یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے جاری کردہ وضاحت میں کہا گیا کہ ’کچھ طلبہ یونیورسٹی کے ماحول کوخراب کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، یہ طلبہ کئی سالوں سے بسوں کو روکتے ہیں۔ چھوٹی باتوں پر بھی مرکزی دروازہ بند کر کے اساتذہ، عملے اور طلبہ کو اندر آنے اور باہر جانے سے روک دیا جاتا ہے۔‘

بیان میں مزید کہا گیا کہ ’یہ طلبہ کلاس رومز سے بھی اساتذہ کو باہر نکال دیتے تھے۔ انہیں کئی بار سمجھانے کی کوشش کی گئی لیکن انہوں نے کسی کی نہیں سنی۔‘

بیان کے مطابق ’گذشتہ سال ان طلبہ کے والدین کو بلایا گیا اور جب 20 میں سے 13 طلبہ کے والدین کو اس معاملے سے آگاہ کیا گیا تو یہ مسئلہ حل ہو گیا لیکن سات طلبہ نے اپنے والدین کو لانے کے بجائے تعلیمی ماحول میں خلل ڈالنا جاری رکھا۔ جس پر ان کے امتحانی نتائج روک دیے گئے ہیں۔‘

بیان میں مزید بتایا گیا کہ ’اس کے علاوہ ان طلبہ کو کوئی سزا نہیں دی گئی اور ان کو اگلے سمسٹر میں داخلہ دے دیا گیا ہے۔ انہیں ہاسٹل میں رہائش اور گذشتہ مڈٹرم امتحانات میں بیٹھنے کی اجازت بھی دی گئی۔‘

یونیورسٹی حکام کے مطابق: ’دو مئی کو ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے ان طلبہ کا آگاہ کیا گیا کہ ڈسپلن کمیٹی کی میٹنگ پانچ مئی بروز جمعہ کال کی گئی ہے تاکہ ان سات طلبہ کے معاملے پر نظرثانی کی جائے اوران کے نتائج کا مسئلہ حل ہوسکے لیکن بدقسمتی سے ان طلبہ نے آج صبح یونیورسٹی کی لا کالج پارکنگ سے یونیورسٹی کی تمام بسوں کو نکلنے نہیں دیا، اس کے علاوہ مرکزی دروازہ بند کر کے اساتذہ اورسٹاف کو بھی روکا اندر نہیں آنے دیا۔‘

بیان کے مطابق ’ان طلبہ نے خواتین اساتذہ کے ساتھ بھی بدتمیزی کی اور تشدد پر اتر آئے جس سے ایک گاڑی کو نقصان پہنچا۔ اس کے بعد مزید پرتشدد واقعات کو روکنے کے لیے یونیورستی کو پانچ مئی سے تاحکم ثانی بند کر دیا گیا۔‘

یونیورسٹی بندش کے معاملے پر بات کرتے ہوئے ایک طالب علم یاسر بلوچ کا کہنا تھا کہ ’ اس مسئلے کی ابتدا ایک مہینے قبل ہوئی جب مڈٹرم امتحانات ہو رہے تھے۔ اس دوران یونیورسٹی میں تین دن بجلی بند رہی اور ہاسٹل کے جنریٹرکو بھی انتظامیہ والے اٹھا کر لے گئے۔‘

یاسر کے مطابق ’اس پر طلبہ نے احتجاج کیا اور بجلی کی فراہمی کا مطالبہ کیا۔ مطالبات کا ڈرافٹ بنایا گیا۔ جس میں بجلی کی فراہمی، بہتر کھانے کی فراہمی، لائبریری میں کرسیوں کی فراہمی، لیب میں کیمیکل کی فراہمی اور کمپیوٹر لیب کا مطالبہ شامل تھا۔‘

یاسر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’ہم نے احتجاج سے پہلے تمام قانونی ذرائع بھی استعمال کیے اور یونیورسٹی کی انتظامیہ سے اپنے امتحانات کے نتائج کا مطالبہ کیا لیکن ہمیں ہمارے لکھے گئے خطوط کا کوئی جواب نہیں ملا جس پر ہم نے پہلے ٹوکن ہڑتال واک اور مظاہرے کیے لیکن کسی نے ہم سے نہیں پوچھا کہ مسئلہ کیا ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’آج ہم نے مجبور ہو کر انتہائی قدم اٹھاتے ہوئے یونیورسٹی کے مرکزی دروازے کو بند کر کے آمدورفت معطل کی۔ ہاسٹل میں بجلی کی بندش پرپانچ سو کے قریب طلبہ اور طالبات نے احتجاج کیا تھا، لیکن ان میں صرف 18 طالب علموں کو نامزد کرکے ان کے نتائج کو روکا گیا، جن میں 12 کے نتایج دے دیے گئے لیکن چھ کے نتائج کو روک لیا گیا ہے۔‘

یاسر کہتے ہیں: ’یونیورسٹی انتظامیہ نے ایک بیان حلفی بھی بنایا ہے جس میں لکھا گیا ہے کہ طالب علم اس بات کا اعتراف کریں کہ وہ آئندہ کسی بھی معاملے پربات نہیں کریں گے اور نہ کسی احتجاج کا حصہ بنیں گے۔‘

’مزید کہا گیا کہ طلبہ اور ان کے والدین بھی معافی مانگیں کہ وہ اس رویے کی معذرت کرتے ہیں اور والدین اپنے بچے کی ذمہ داری بھی لیں گے لیکن ہم نے کوئی غلط کام نہیں کیا کچھ بنیادی ضروریات کی فراہمی کا مطالبہ کیا، جو ہماراحق بنتا ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’یونیورسٹی کی بندش سے تمام طلبہ کا نقصان ہو گا کیوں کہ انتظامیہ نے طلبہ کو امتحانی نتائج دینے کے بجائے یونیورسٹی کا بند کر دی۔ انہوں نے چار ہزار طلبہ کے تعلیم کا متاثرکرنا ضروری سمجھا بجائے اس کے کہ وہ صرف چھ طلبہ کے نتائج دے دیتے۔‘

یاسر کے مطابق ’اس یونیورسٹی میں دور دراز کے علاقوں سے بھی طلبہ آتے ہیں۔ ابھی عید کے بعد طلبہ ہزاروں روپے خرچ کر کے یونیورسٹی آئے تھے اب واپس جانے اور پھر کچھ بعد یونیورسٹی آنے پر انہیں دوبارہ خرچ کرنا پڑے گا۔‘

یاسر کا کہنا ہے کہ ’طلبہ نے انتظامیہ کو 24 گھنتے میں یونیورسٹی کھولنے اور نتائج جاری کرنے کا وقت دیا ہے۔ ایسا نہ ہونے پر ہم وائس چانسلر اور پرو وائس چانسلر کی برطرفی کا مطالبہ بھی کریں گے۔‘

شعبہ قانون کے ایک طالب علم ہابوٹ چنگیز کے مطابق ’یہ تنازع گذشتہ سال اس وقت سے چل رہا جب طلبہ نے بجلی کی عدم فراہمی پر احتجاج کیا تھا۔‘

ہابوٹ بھی ان طلبہ میں شامل ہیں جن کے نتائج روک لیے گئے ہیں۔

ان کے مطابق ’ہم تین دن تک گیٹ کے سامنے بیٹھے رہے لیکن کسی نہ ہم سے نہ پوچھا۔ ہمیں یقین دہائی کروائی گئی کہ ہمارے مطالبات وائس چانسلر کے سامنے رکھے جائیں گے لیکن ایسا نہیں ہوا۔‘

تربت یونیورسٹی کے محکمہ تعلقات عامہ کے عہدیدار اعجاز نے انڈپینڈنٹ اردو سے طلبہ کر الٹی میٹم کے حوالے سے بات کرتے ہوئے اس پر کوئی تبصرہ کرنے سے منع کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم نے کل وضاحت کے ساتھ اپنا موقف جاری کردیا تھا اور آج یونیورسٹی کے کھلنے کا کوئی امکان نہیں ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی کیمپس