قائد اعظم یونیورسٹی: ’ہم قائدین ایک خاندان ہیں‘

کچھ عناصر قائد اعظم یونیورسٹی کو بدنام کرنے کے لیے مختلف حربے استعمال کر رہے ہیں لیکن یونیورسٹی کا معیار اور اس سے محبت کرنے والوں کے جذبات ہمیشہ دشمنوں کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جاتے ہیں۔

مارگلہ کے پہاڑوں کے دامن میں واقعہ پاکستان کی نمبر ون اور عالمی رینکنگ کی 400 جامعات میں شامل قائدِ اعظم یونیورسٹی کا قیام 1967 میں عمل میں آیا تھا (قائد اعظم یونیورسٹی فیس بک پیج)

مارگلہ کے خوبصورت پہاڑوں کے دامن میں 1700 ایکڑ پر مشتمل پاکستان کی اول نمبر اور عالمی رینکنگ کی 400 جامعات میں شامل پاکستان کی واحد قائداعظم یونیورسٹی کا قیام 1967 میں عمل میں آیا تھا۔

اس جامعہ کے 38 کے قریب ڈپارٹمنٹس میں ہونے والی ریسرچ کا ناصرف پاکستان میں بلکہ عالمی دنیا میں اپنا ایک مقام ہے۔

جامعہ کے طلبہ و طالبات ناصرف نصابی بلکہ غیر نصابی سرگرمیوں جیسے مختلف کھیلوں، ڈرامہ، میوزک وغیرہ میں اپنا لوہا منوا چکے ہیں۔

جامعہ میں پاکستان کے ہر صوبے کے طلبہ کے داخلوں کا پہلے سے مقرر کوٹہ ہے۔

پاکستان کے ہر خطے کے ساتھ ساتھ بیرونی ممالک کے طلبہ و طالبات کی کثیر تعداد بھی یہاں زیر تعلیم ہے۔ یوں جامعہ ثقافتی، مذہبی،  نسلی اور علاقائی تنوع کا ایک اہم مرکز ہے، جہاں پڑھنے والے طلبہ و طالبات کو قائدین کہا جاتا ہے اور لقب پانے کے بعد تمام نسلی مذہبی اور علاقائی تفرقات دم توڑ دیتے ہیں۔

پاکستان کے ہر علاقے کی ثقافت یہاں اپنی تمام تر خوبیوں کے ساتھ رقص کرتی دکھائی دیتی ہے۔

طرح طرح کے لذیذ کھانوں کے مرکز مجید ہٹس، کوئٹہ ہٹس اور قائدین ہٹس جامعہ کی خوبصورتی کو چار چاند بخشے ہوئے ہیں۔

نزدیکی علاقوں میں رہائش پذیر، ملازمت کرنے والے یا دور سے کسی میٹنگ کے غرض سے اسلام آباد تشریف لائے ہوئے قائدین اکثر و بیشتر اپنے دوستوں اور فیملی کے ساتھ ناشتہ کرنے  مجید ہٹس پہنچے ہوتے ہیں۔

گڈو ہٹس کی چائے سے لطف اندوز ہوتے ہوئے طلبہ و طالبات ڈاکٹر عاصم سجاد کے سٹڈی سرکل میں سیاسی اور معاشرتی  بحث مباحثہ میں مشغول نظر آتے ہیں۔ 

ہٹس پر بیٹھے ہوئے یہ نوجوان ثقافتی تنوع پر بحث مباحثہ کے بعد فن فیئر میں ان ثقافتوں کا عملی مظاہرہ پیش کر رہے ہوتے ہیں۔

تلاش کرنے سے بھی شاید ایسا قائدین مشکل سے ملے جن کے پشتون، پنجابی، سرائیکی، سندھی، بلوچ، بلتی اور کشمیری یہ سب دوست نہ ہو۔ 

کوئز، مڈ اور فائنل کا غم لیے قائدین جب جامعہ کے پیچھے کی جانب مارگلہ میں بہتی سٹریم کا رخ کرتے ہیں تو یہ سب غم بھول جاتے ہیں۔

قائد اعظم یونیورسٹی میں ڈپارٹمنٹ کی سطح پر طلبہء سوسائٹیز بنی ہوئی ہیں جن کا مقصد ڈپارٹمنٹ کے طلبہ کے مسائل کے لیے آواز بلند کرنا، سٹڈی ٹور، غیر نصابی سرگرمیوں میں طلبہ کے درمیان مقابلے اور اینول نائٹ کا انعقاد وغیرہ ہیں۔

جامعہ میں قائم ڈیبیٹنگ اور لیٹریری سوسائٹی نے جامعہ کا نام پورے پاکستان میں روشن رکھا ہوا ہے۔ 

یونیورسٹی کی سطح پر پشتون، سندھ، پنجاب، سرائیکی، بلوچ اور گلگت بلتستان کونسل قائم ہیں جن کا مقصد مختلف ثقافتی ایونٹس کا انعقاد، سٹڈی سرکل اور طلبہ کے مسائل کے لیے آواز بلند کرنا ہے۔

جامعہ کے فارغ التحصیل قائدین جامعہ کے تعمیر وترقی میں کردار ادا کرنے کے لیے ہمیشہ صف اول میں کھڑے رہتے ہیں۔

اسی تسلسل میں باقاعدہ الومنائی کے نام سے ایک سکالرشپ قائم کیا گیا ہے جس میں الومنائی فنڈنگ کرتے ہیں اور مستحق طلبہ و طالبات کو فیس کی مد میں پیسے دیے جاتے ہیں۔

رمضان کے مہینے میں غیر مسلم قائدین جس طرح مل کر مسلمانوں کے لیے افطاری کا دسترخوان سجاتے ہیں بلکہ اسی طرح مسلمان قائدین ہندوؤں کے ہولی اور عیسائیوں کے کرسمس کا ایک خاص احترام کرتے ہیں۔

دن کی روشنی ہو یا شام کی ٹھنڈی ہوا نوجوان گلوکار سینٹرل لائیبریری کے لان میں بیٹھ کر اپنی سریلی آواز سے جامعہ کی فضا کو خوش گوار بنا رہے ہوتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

لفظ قائدین اپنے اندر بے پنا محبت، جذبات اور یادیں سموئے ہوئے ہے۔

دفتر ہو، تقریب ہو یا پھر کوئی بھی اجتماع، جب دو قائدین ملتے ہیں تو پھر ان کی نہ ختم ہونے والی جذبات بھری یادوں کی داستانیں باب القائد سے شروع ہو کر مجید ہٹس سے گزرتی ہوئی سٹریم تک جا پہنچتی ہیں۔

قائدین کو ہر وقت کسی نہ کسی خوشی کی تلاش رہتی ہے چاہے وہ کتنی ہی چھوٹی کیوں نہ ہو یہ اسے ایونٹ بنا کر مناتے ہیں۔

آئے روز ہر ڈپارٹمنٹ نوٹس بورڈ سالگرہ کے چاٹ اور غباروں سے سجا ہوا دکھائی دیتا ہے۔

اس کے بعد نیا موبائل خریدنے کی ٹریٹ، کوئز یا مڈ میں زیادہ مارکس لینے کی ٹریٹ، نئی شرٹ لینے کی ٹریٹ، سکالرشپ ملنے کی ٹریٹ غرض کہ سمسٹر کی فیس سے زیادہ پیسے تو دوستوں کو ٹریٹ دینے میں لگ جاتے ہیں۔

کسی ایک قوم کے ثقافتی رقص میں آپ کو ہر قوم کا  نوجوان برابر رقص کرتے دکھائی دے گا اور شاید یہی وجہ ہے کہ اسے ’منی پاکستان‘ کہا جاتا ہے۔

اس یونیورسٹی نے ملیحہ لودھی، پرویز ہود بوائے، عاصم سجاد، شمشاد اختر، شیریں مزاری، مریم اورنگزیب، ابرارالحق اور حمزہ علی عباسی جیسے سینکڑوں ہزاروں نامور شخصیات ہر شعبہ زندگی میں بھیجی ہیں۔

محبت کرنے والوں کی تعداد حد سے بڑھ جائے تو نفرت کرنے والے پیدا ہو ہی جاتے ہیں۔

ملک کی بھاری بھرکم فیس لینے والی جامعات بھی اپنی تمام کوششوں کے باوجود قائد اعظم یونیورسٹی کو پیچھے نہ چھوڑ سکیں۔

ایسے میں کچھ عناصر عرصہ دراز سے اس جامعہ کو بدنام کرنے کے لیے مختلف حربے استعمال کر رہے ہیں لیکن قائد اعظم یونیورسٹی کا معیار اور اس سے محبت کرنے والوں کے جذبات ہمیشہ دشمنوں کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جاتے ہیں۔

تو آئیں آج پھر ہم اس جامعہ کے مخالف عناصر کے خلاف مل کر انھیں یہ پیغام دیں کہ روز اول سے ’ہم قائدین ایک فیملی‘ ہیں اور رہیں گے۔

’Once Quaidian, Forever Quaidian‘ 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ