اسلام آباد: لسانی بنیادوں پر جھگڑا، قائداعظم یونیورسٹی بند

گذشتہ رات سوشل میڈیا پر کئی صارفین کی جانب سے ایسی ویڈیوز شیئر کی گئیں جن میں طلبہ کے ایک ہجوم کو جھگڑتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔

4 اکتوبر 2013 کو لی گئی اس تصویر میں قائد اعظم یونیورسٹی کی بس طلبہ کو لیے یونیورسٹی سے روانہ ہو رہی ہے (اے ایف پی)

اسلام آباد کی قائد اعظم یونیورسٹی میں طلبہ کے دو لسانی گروہوں میں جھگڑے کے بعد انتظامیہ نے تاحکم ثانی تدریسی عمل روک کر ہوسٹلز خالی کروانے کا حکم دے دیا ہے۔

قائد اعظم یونیورسٹی کی جانب سے جاری ہونے والے نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ ’طلبہ گروپس میں تصادم کے بعد امن و امان کی غیر یقینی صورت حال کے پیش نظر قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد تاحکم ثانی بند رہے گی۔‘

اسی نوٹیفکیشن میں ہوسٹلز میں رہنے والے طلبہ کو ہوسٹلز خالی کرنے کا بھی کہا گیا ہے۔

گذشتہ رات سوشل میڈیا پر کئی صارفین کی جانب سے ایسی ویڈیوز شیئر کی گئیں جن میں طلبہ کے ایک ہجوم کو جھگڑتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔

طلبہ کے ان دو لسانی گروہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو جھگڑے کے حوالے سے تصدیق کی ہے۔

جھگڑے میں ملوث ایک گروہ کے قانونی مشیر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’ہم نے گذشتہ رات جو کیا وہ اپنے تحفظ میں کیا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’ایک۔۔۔تنظیم نے گذشتہ دو سال میں کئی مرتبہ جھگڑا پیدا کیا ہے ۔ گذشتہ ہفتے بھی ہم پر سات سے آٹھ سو افراد نے حملہ کیا اور ہمارے طلبہ کو زخمی کیا۔‘

انہوں نے مزید بتایا کہ ’گذشتہ ہفتے یعنی 20 فروری کو ہونے والے واقعے کے جواب میں کل یعنی 27 فروری کو ہم نے  جو کیا وہ اپنے تحفظ میں اٹھایا گیا اقدام تھا۔‘

جب ان سے پوچھا گیا کہ کل انہوں نے اپنے تحفظ کے لیے کیا قدم اٹھایا ہے تو وہ کوئی واضح جواب نہ دے سکے۔

انڈپینڈنٹ اردو نے 27 فروری کی رات کو حملے کا نشانہ بننے والے گروہ کے نمائندے سے بھی بات کی۔

ان کے نمائندے نے تصدیق کی کہ ’ہم پر ایک ہزار سے زائد افراد نے حملہ کیا تھا جن کی اکثریت نے چہرے ڈھانپ رکھے تھے اور ہتھیاروں سے لیس تھے۔‘

انہوں نے تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ ’حملہ آوروں کی تیاری بتا رہی تھی کہ وہ منصوبہ بنا کر آئے ہیں۔ حملہ آور ڈنڈوں، آہنی مکوں اور خنجروں سے لیس تھے۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’حملے کے بعد ہمارے تین رکن شدید زخمی ہوئے ہیں جن کا اسلام آباد کے ایک نجی ہسپتال میں آپریشن ہو رہا ہے۔ اس کے علاوہ تقریباً چالیس کے قریب افراد کو سروں میں چوٹیں آئی ہیں۔‘

جب ان سے 20 فروری کو ہونے والے واقعے کے بارے میں پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ’یہ یونیورسٹی ہے اور معمولی ہاتھا پائی وغیرہ تو ہوتی رہتی ہے۔ لیکن 27 فروری کی رات کو جو ہوا ایسا پہلے کبھی نہیں دیکھا۔‘

انہوں نے بتایا کہ ہم نے اس واقعے کے خلاف تھانہ سیکرٹریٹ میں درخواست دے دی ہے اور یونیورسٹی انتظامیہ کو بھی آگاہ کیا ہے۔

انڈپینڈنٹ اردو نے پولیس کو موقف جاننے کے لیے تھانہ سیکرٹریٹ کے ایس ایچ او ندیم طاہر سے بات کی تو انہوں نے کہا ’میں اس وقت ایسی پوزیشن میں نہیں ہوں کہ آپ کو کچھ بتا سکوں۔‘

تاہم اسلام آباد پولیس نے پیر کی شب ٹویٹ میں بتایا کہ طلبہ کے مابین جھگڑے میں 6 طلبا زخمی ہوئے ہیں اور پولیس اور ضلعی انتظامیہ یونیورسٹی حکام کے ساتھ رابطے میں ہے۔

قائد اعظم یونیورسٹی میں سیاسی بنیادوں کی بجائے لسانی اور جغرافیائی بنیادوں پر طلبہ تنظیمیں موجود ہیں۔ ان میں پنجاب سٹوڈنٹ کونسل، پشتون سٹوڈنٹ کونسل، بلوچ سٹوڈنٹ کونسل، مہران سٹوڈنٹ کونسل، سرائیکی سٹوڈنٹ کونسل، گلگت بلتستان سٹوڈنٹ کونسل اور کشمیر سٹوڈنٹ کونسل نمایاں ہیں۔

یہ سٹوڈنٹ کونسلز تقریباً ہر ہفتے اپنی ثقافتی سرگرمیاں منعقد کرتی رہتی ہیں۔

انڈپینڈنٹ اردو نے 27 فروری کو ہونے والے واقعات کے بارے میں مزید جاننے کے لیے سرائیکی سٹوڈنٹ کونسل کے ایک نمائندے سے بھی بات کی، جنھوں نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر تصدیق کی کہ سوشل میڈیا پر جن دو طلبہ تنظیموں کا نام لیا جا رہا ہے جھگڑا انہیں میں ہوا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان کا کہنا تھا کہ ’مجھے قائد اعظم یونیورسٹی میں دو سال مکمل ہو چکے ہیں لیکن اس دوران اتنے بڑے پیمانے پر جھگڑا ہوتے نہیں دیکھا۔‘

انہوں نے کہا ’گذشتہ ہفتے پہلی طلبہ تنظیم نے دوسری پر حملہ کیا تھا۔ جس کا بدلہ لینے کے لیے 27 فروری کی رات کو دوسری تنظیم نے پہلی پر زیادہ بڑا حملہ کیا۔‘

انہوں نے تصدیق کی کہ اس وقت قائد اعظم یونیورسٹی میں پولیس کی نفری موجود ہے جو ہوسٹلز کی تلاشی کے ساتھ ساتھ انہیں خالی بھی کروا رہی ہے۔

قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد کی انتظامیہ کا موقف جاننے کے لیے ان سے متعدد بار رابطے کی کوشش کی لیکن ان کی جانب سے تاحال جواب موصول نہیں ہوا تاہم گذشتہ روز ٹوئٹر پر یونیورسٹی کے رجسٹرار راجہ قیصر احمد نے یونیورسٹی کی بندش کا اعلان کیا۔

 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی کیمپس