پاکستان میں 59 فیصد طلبہ کم از کم ایک بار بلیئنگ کا شکار

بلیئنگ کے خاتمے کے لیے سکول انتظامیہ کا کردار بہت اہم ہے۔ سکول انتظامیہ کو بلیئنگ کرنے والوں کے خلاف ’زیرو ٹالرنس لیول‘ رکھنی ہو گی۔

30 نومبر 2021 کو لاہور میں ایک شخص اپنے بچوں کے ساتھ سموگ میں سکول کی جانب جا رہا ہے (اے ایف پی/ عارف علی)

لاہور کے ایک نجی سکول میں طلبہ نے مل کر اپنی ساتھی طالبہ پر تشدد کیا جس کی ویڈیو وائرل ہو گئی۔ اس ویڈیو میں طلبہ نے تشدد کے علاوہ اردو میں گالم گلوچ بھی کی۔

ویڈیو وائرل ہونے کے بعد سوشل میڈیا پر شور برپا ہوا اور ہوا کیا کہ سکول نے نہ صرف تشدد کرنے والی طلبہ کو سکول سے نکال دیا بلکہ اس طالبہ کو بھی نکال دیا جو تشدد کا نشانہ بنی۔

صرف یہی نہیں بلکہ اس نجی سکول کی چوہدراہٹ دیکھیں کہ بقول پولیس حکام سکول کی انتظامیہ نے پولیس سے نہ تو تعاون کیا اور نہ ہی اس واقعے کی سی سی ٹی وی فوٹیج دی۔

اس نجی سکول میں جو ہوا وہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ پاکستان کیا دنیا بھر کے سکولوں میں ’بلیئنگ‘ (دھونس جمانا) کافی عام ہے لیکن فرق یہ ہے کہ کون سا سکول بلیئنگ کے خاتمے کے لیے اقدامات کرتا ہے اور کون طلبہ کو سکول سے نکال کر اپنی جان چھڑانے کو ہی مسئلے کا حل سمجھتا ہے۔

بلیئنگ کے حوالے سے کنگ ایڈورڈز میڈیکل کالج نے 2021 میں ایک تحقیق کی۔ اس تحقیق میں کہا گیا ہے کہ دنیا کے دیگر ممالک میں تو بلیئنگ پر کافی تحقیق کی جا چکی ہے لیکن پاکستان میں ایسا نہیں ہے۔

اس تحقیق کے مطابق 59 فیصد طلبہ کو کم از کم ایک بار بلیئنگ کا سامنا کرنا پڑا ہے اور بلیئنگ کے کیس نجی سکولوں کے مقابلے میں سرکاری سکولوں میں زیادہ ہیں۔

سرکاری سکولوں میں سٹوڈنٹس کی بلیئنگ کی شرح 54 فیصد ہے جبکہ نجی سکولوں میں یہ شرح 46 فیصد ہے لیکن سرکاری سکولوں میں 50 فیصد طلبہ کو صرف ایک سٹوڈنٹ سے بلیئنگ کا سامنا کرنا پڑا لیکن نجی سکول میں ایک سے زیادہ کا سامنا کرنا پڑا۔

تو بلیئنگ کیوں کی جاتی ہے؟ تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ سرکاری سکولوں میں بلیئنگ کا شکار بننے والے 49 فیصد کو ان کی ظاہری شخصیت کو دیکھ کر نشانہ بنایا جاتا ہے جبکہ 19 فیصد کو ان کی بیماری اور 19 فیصد ہی کو اس لیے کہ وہ کمزور ہوتے ہیں۔

تاہم نجی سکولوں میں 45 فیصد کو ان کی ظاہری شخصیت کو دیکھ کر نشانہ بنایا جاتا ہے، 25 فیصد ایسے جو کمزور ہوں اور 22 فیصد سے زائد کو اس لیے نشانہ بنایا جاتا ہے کہ ان کا سماجی یا معاشی رتبہ کم ہوتا ہے۔

پاکستان ہی میں کی گئی ایک تحقیق کے مطابق 58 فیصد سٹوڈنٹس کو جذباتی بلیئنگ کا سامنا کرنا پڑا، 44 فیصد کو زبانی کلامی بلیئنگ کا سامنا کرنا پڑا جبکہ 19 فیصد کو جسمانی بلیئنگ کا سامنا کرنا پڑا۔

تحقیق میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ سماجی و معاشی کم درجے سے تعلق رکھنے والے 20 فیصد طلبہ کو بلیئنگکا نشانہ بنایا گیا۔

یہ صرف اعداد و شمار نہیں ہیں۔ میرے ایک دوست کا بیٹا جو اپنے کلاس فیلوز کے مقابلے میں قد میں چھوٹا اور جسمانی طور پر کمزور تھا اس کو سکول میں بلیئنگ کا نشانہ بنایا جاتا تھا۔

اس کے دوست اس کو اٹھا کر سکول میں پھرتے تھے اور لڑکیوں کے سامنے لے جا کر اس کا مذاق اڑاتے تھے۔ میرے دوست نے کہا کہ لڑکا ہے اس کو سخت ہونے دو اور ویسے بھی لڑکے ایسی حرکتیں کرتے ہیں۔

ہم نے بھی تو سکول میں یا تو کسی کے ساتھ یہی کیا تھا یا کسی نے ہمارے ساتھ یہی کیا تھا۔

لیکن میرے دوست کو اس بات کی سمجھ نہیں آئی کہ جو پہلے ہوا نہ تو وہ صحیح تھا اور جو اب ہو رہا ہے وہ درست ہے۔

اس کا بیٹا جو کبھی پراعتماد بچہ تھا شرمیلا سا ہو گیا تھا۔ وہ اینزائٹی اور ڈپریشن کا شکار ہو چکا تھا۔ اس کی پڑھائی کا حرج ہونا شروع ہو گیا اور یہی علامات ہوتی ہیں ان طلبہ میں جو بلیئنگ کا شکار ہوتے ہیں اور اگر بلیئنگ حد سے زیادہ کی جائے تو بلیئنگ کا شکار سٹوڈنٹ اپنی جان بھی لینے کے بارے میں سوچ سکتا ہے۔

بلیئنگ کا سامنا کرنے والے سٹوڈنٹس کیا کرتے ہیں؟

کنگ ایڈورڈز کالج کی تحقیق کے مطابق سرکاری سکولوں میں پڑھنے والے 50 فیصد سے زائد متاثرہ سٹوڈنٹس بلیئنگ کرنے والوں کے سامنے سے خاموشی سے گزر جاتے ہیں۔ تاہم نجی سکولوں میں میں 50 فیصد سے زائد بلیئنگ کا شکار ہونے والے سٹوڈنٹس بلیئنگ کرنے والوں کے سامنے لڑائی جھگڑا کیے بغیر ڈٹ جاتے ہیں یا پھر لڑائی جھگڑا کرتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس حوالے سے کہا جاتا ہے کہ بلیئنگ کا شکار طلبہ عام طور پر یعنی 63 فیصد بلیئنگ کرنے والوں سے لڑ پڑتے ہیں، 52 فیصد بلیئنگ کرنے والوں کو نظر انداز کر دیتے ہیں، 44 فیصد یا تو اپنے والدین یا اپنے بڑے بہن بھائیوں کو بتاتے ہیں اور 42 فیصد اپنے دوستوں کو بتاتے ہیں۔

تحقیق میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ 75 فیصد کے مطابق سب سے موثر حکمت عملی ہے کہ لڑائی کرو، 74 فیصد کا کہنا ہے کہ اپنی حفاظت کرنے کا پلان بنائیں، 71 فیصد کا کہنا ہے کہ دوستوں کو بتائیں اور اتنی ہی فیصد کا کہنا ہے کہ والدین کو بتایا جائے۔

یہ سب بہت سنگین ہے لیکن اس سے زیادہ بھی سنگین بات یہ ہے کہ جب بلیئنگ کے شکار نے سکول انتظامیہ کے نوٹس میں ایشو لائے تو سرکاری اور نجی سکولوں کی انتظامیہ نے 45 فیصد بلیئنگکرنے والے کو کچھ نہیں کہا اور نہ ہی بلیئنگ کے خاتمے یا کنٹرول کرنے کے لیے کسی قسم کی موثر حکمت عملی وضع کی۔

پاکستان میں بلیئنگ دیگر ممالک میں سے کہیں کم ہے۔ امریکن سائیوکالوجی ایسوسی ایشن کے مطابق سکول جانے والے بچوں میں سے 40 سے 80 فیصد بچے سکول میں کبھی نا کبھی بلیئنگ کا شکار ہوتے ہیں۔

سعودی عرب میں کی گئی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی کہ ایک ماہ میں 26 فیصد بچے بلیئنگ کا شکار ہوتے ہیں۔

بلیئنگ کے خاتمے کے لیے سکول انتظامیہ کا کردار بہت اہم ہے اور وہ ہی بلیئنگ کا خاتمہ کر سکتی ہے۔ سکول انتظامیہ کو سکول میں بلیئنگ کرنے والوں کے خلاف ’زیرو ٹالرنس لیول‘ رکھنی ہو گی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ