لاہور: ساتھی طالبہ پر ’تشدد‘ کے معاملے میں سزا ہوگی یا مفاہمت؟

ایڈیشنل سیشن جج نے تھانہ ڈفینس اے کی پولیس کو ان طالبات کو 30 جنوری تک گرفتار کرنے سے روک دیا ہے۔

چند روز قبل سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی جس میں لاہور کے ایک نجی سکول کی تین طالبات ایک اور ساتھی طالبہ کو مبینہ طور پر تشدد کا نشانہ بنا رہی ہیں۔

مبینہ تشدد کرنے والی تینوں طالبات کی ضمانت قبل از گرفتاری 50، 50 ہزار روپے کے مچلکوں کے عوض منظور ہو گئی ہیں اور ایڈیشنل سیشن جج نے تھانہ ڈیفینس اے کی پولیس کو ان طالبات کو 30 جنوری تک گرفتار کرنے سے روک دیا ہے۔

مگر مدعا یہ ہے کہ آخرکار یہ معاملہ عدالت میں سزا پر اختتام پذیر ہوگا یا مفاہمت پر؟

سی ای او ایجوکیشن لاہور طارق فاروق نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ڈسٹرکٹ ایجوکیشن اتھارٹی نے تین رکنی کمیٹی تشکیل دے دی ہے جو پیر کو نجی سکول جا کر واقعے کی انکوائری شروع کرے گی۔

تین روز قبل 19 جنوری کو سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی جس میں ایک لڑکی کو تین لڑکیاں زمین پر گرا کر تشدد کا نشانہ بنا رہی ہیں۔ جبکہ ویڈیو بنانے والے کی آواز سے معلوم ہوتا ہے کہ ویڈیو کوئی لڑکا طالب علم بنا رہا ہے۔

اس ویڈیو کے وائرل ہونے کے بعد اس واقعے کی ایک ایف آئی آر بھی سامنے آئی جو متاثرہ بچی کے والد نے تھانہ ڈیفینس اے میں درج کروائی۔

19 جنوری کو درج ہونے والی اس ایف آئی آر میں متاثرہ بچی کے والد کے بیان کے مطابق: ’ان کی بیٹی لاہور کے ایک نجی سکول میں پڑھتی ہے جہاں جنت ملک نامی لڑکی بھی پڑھتی ہے جو کہ نشے کا شوق رکھتی ہے اور میری بیٹی کو بھی اس میں ملوث کرنا چاہتی تھی۔‘

والد نے بیان میں لکھا کہ انہوں نے اس بچی کی ویڈیو بنا کر ان کے ’والد کو بھیجی اور جنت کو ان کے اس اقدام پر غصہ آیا اور انہوں نے اپنی بہن کائنات ملک، عمائمہ اور نور رحمٰن علی کو ساتھ ملا کر میری بیٹی پر قاتلانہ حملہ کیا‘۔

بیان میں مزید کہا گیا کہ ’16 جنوری کو چاروں لڑکیوں نے صلاح مشورہ کر کے بعد دوپہر ڈھائی بجے ان کی بیٹی پر حملہ کیا۔‘

ان کے مطابق ’بچی کو ٹھڈے مارے گئے، ان کے بال نوچے گئے انہیں زمین پر گرایا گیا اور ان پر چھریوں کے وار بھی کیے گئے۔ ساتھ ہی حملہ کرنے والی لڑکیوں نے متاثرہ لڑکی کے گلے سے ڈھائی تولے کا لاکٹ چرا لیا۔ اس دوران وہاں موجود لڑکے کھڑے دیکھتے رہے اور ویڈیو بناتے رہے۔‘

اس واقعے کا مقدمہ دفعہ337 اے 1، 354 اور379 کے تحت درج کیا گیا ہے۔

بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے وکیل ایڈوکیٹ احمر مجید نے اس کیس کے حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’جب بھی کوئی 18 سال سے کم عمر شخص جرم کرتا ہے تو وہ جووینائل کہلاتا ہے اور اس پر جووینائل جسٹس سسٹم ایکٹ 2018 لاگو ہوتا ہے۔ ‘

’اس کیس میں جو دفعات لگی ہیں، وہی لگ سکتی تھیں کیونکہ انہیں تشدد کے نشانات زیادہ نہیں ملے ہوں گے۔‘ 

ان کا کہنا تھا کہ ان دفعات میں سے پہلی دو دفعات قابل ضمانت ہیں جبکہ دفعہ 379 جو کہ چوری کے الزام میں لگی وہ ناقابل ضمانت دفعہ ہے، لیکن اس کی سزا زیادہ نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ تینوں دفعات بہت کم سزاؤں والی ہیں۔ اس کے علاوہ اگر ’ہم اس کو جووینائیل سسٹم ایکٹ 2018 کے ساتھ دیکھتے ہیں تو اس میں مزید آسانی دی گئی ہے۔‘

’مثال کے طور پر کوئی بھی جرم جس کی سزا تین سال تک ہے وہ بچوں کے لیے مائنر اوفینس ہوگا، جس کی سزا سات سال ہے وہ بڑا جرم ہوگا اور سات سال سے اوپر کی سزا والے جرائم شدید نوعیت کے ہوں گے۔ اور قانون یہ کہتا ہے کہ اگر عام قوانین میں یہ جرائم  قابل ضمانت نہیں بھی ہیں تو بچوں کی حد تک وہ قابل ضمانت ہوں گے۔ اس لیے اس کیس میں بھی ان بچیوں کو سہولت ملی ہے اور ان کی ضمانت ہوئی۔‘

ایک نقطہ جو ایڈوکیٹ احمر مجید نے اٹھایا وہ یہ تھا کہ ایف آئی آر میں والد کے بیان کے مطابق ان کی بچی پر قاتلانہ حملہ کیا گیا۔

ایف آئی آر میں تحریر کردہ مواد کے تحت اس میں دفعہ 324 لگنی چاہیے تھی مگر پولیس نے وہ دفعہ نہیں لگائی کیونکہ جو ویڈیو آئی ہے اس میں اس قسم کی کوئی چیز سامنے نہیں آئی۔ لیکن چونکہ والد نے مبینہ الزام لگایا تھا اس لیے اصولی طور پر قانون کی روح سے پولیس کواس کے مطابق دفعات لگانی چاہیے تھیں۔

ان کا کہنا تھا: ’میرے خیال میں جب یہ کیس عدالت میں چلے گا تو ان بچیوں کو مزید رلیکسیشن مل جائے گی اور زیادہ امکان یہی ہے کہ معاملہ رفع دفع ہو جائے گا اور ان کی آپس میں مصالحت ہو جائے گی۔‘ 

اس کیس کو لے کر سوشل میڈیا پر بھی بہت شدید ردعمل دیکھنے کو ملا۔ بہت سی معروف شخصیات بھی اس کیس کے حوالے سے اپنے غم و غصے کا اظہار کر رہی ہیں۔ 

معروف اداکارہ اُشنا شاہ نے اپنی ٹویٹ  میں متاثرہ بچی کا حوصلہ بڑھانے کی کوشش کی اور انہیں کہا کہ ان کے ساتھ یہ سلوک کرنے والی ’گریڈ اے لوزرز ہیں اور انہیں چاہیے کہ ہمت ہارنے کی بجائے فینکس پرندے کی طرح ایک مرتبہ پھر ڑان بھریں۔‘

گلوکارہ و اداکارہ حدیقہ کیانی جو کہ آج کل خود ایک ایسے ہی ڈرامے ’پنجرہ‘ میں کام بھی کر رہی ہیں اور اس ڈرامے کی کہانی بھی کچھ ایسی ہی ہے جس میں بچوں کے سکول میں رویوں کے حوالے سے بات کی گئی ہے۔

حدیقہ نے اپنی ٹیوٹ میں اس واقعے کی مزمت کرتے ہوئے کہا: ’زیادہ تر والدین اپنے بچوں کی زندگیوں میں کیا ہو رہا ہے اس کے بارے میں وہم اور رضاکارانہ طور پر لاعلم ہوتے ہیں، بہت سے غیر دانستہ طور پر اپنے بچوں کے لیے شدید صدمے کا باعث بنتے ہیں جس کے نتیجے میں وہ اور بھی زیادہ انتہائی طریقوں سے دوسرے معصوم بچوں کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔

’ان واقعات کے بارے میں سوچیں جن کی فلم نہیں بنتی اور وہ ہمارے بچے روز بھگتتے ہیں۔ ہم اسے مزید آگے نہیں جانے دے سکتے۔ اپنے بچوں سے بات کریں، اس میں شامل ہوں اور انہیں پیار سے پالیں- اپنے بچوں کی حفاظت کریں اور انہیں دنیا کو سنبھالنے کے لیے مضبوط بنائیں۔‘

حدیقہ کیانی نے مزید لکھا: ’ساتھ ہی، میں ہماری حکومت اور ماہرین تعلیم سے درخواست کرتی ہوں کہ وہ ہمارے بچوں کی حفاظت کے لیے سخت پروٹوکول لگانے کے لیے اکٹھے ہوں۔ میری خواہش ہے کہ میں اس وقت مزید جامع خیالات رکھتی اور امید ہے کہ جلد ہی اس مسئلے پر مزید بات کروں گی لیکن یہ سب ہمارے نظام اور والدین پر اثر انداز ہوتا ہے۔‘

انڈپینڈنٹ اردو نے کچھ والدین سے بھی بات کی جن کے بچے بھی اسی عمر کے لگ بھگ ہیں اور سکول جاتے ہیں۔

لاہور کی رہائشی ربیعہ نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا: ’جو کچھ بھی ہوا میرے خیال میں اس میں والدین کی بھی غلطی ہے اور سکول انتظامیہ کی بھی۔ جب یہ واقعہ رونما ہو رہا تھا تب سکول کے زمہ داران کہاں تھے؟‘

’دوسری جانب باقی بچوں کو دیکھیں تو وہ بھی اس سے لطف اندوز ہورہے تھے۔ کوئی اس غلط اقدام کو روک نہیں رہا تھا۔ ہمارے معاشرے میں بس اب یہ ہی رہ گیا ہے کہ اگر کچھ غلط ہو بھی رہا ہے تو اس کی ویڈیو بنا لواور اس کو روکو نہیں اور جو روکتا ہے اس کے ساتھ وہی ہوتا ہے جو اس بچی کے ساتھ ہوا۔‘

ربیعہ کے مطابق والدین کی غلطی یہ ہے کہ انہوں نے اپنے بچوں پر چیک نہیں رکھا ہوا اور سکول انتظامیہ کی بھی کہ اگر ان کے سکول میں بچے منشیات استعمال کر رہے ہیں تو انہیں کیوں نہیں معلوم؟

ان کا کہنا تھا کہ یہ بچے عمر کے جس حصے میں ہیں اس میں تو بچوں کا خاص طور پر خیال رکھنا چاہیے کہ بچے کسی غلط راستے پر تو نہیں جارہے کیونکہ یہ عمر ایسی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’میں بطور والدہ اپنے بچوں پر یقیناً نظر رکھتی ہوں یہاں تک کہ ان کے دوستوں پر بھی کہ وہ کس سے ملتے ہیں ان کا فیملی بیک گراؤنڈ کیا ہے۔ اس لیے میرے خیال میں اس واقعے میں والدین کا بھی قصور ہے اور سکول کا بھی اتنا ہی قصور ہے۔‘

گلریز چیمہ نے انڈپینڈنٹ اردو سے اس واقعے پر اپنے خیالات کا اظہار کچھ یوں کیا کہ ’لاہور کے نجی سکول میں پیش آنے والا حالیہ واقعہ صحیح معنوں میں ہماری اخلاقیات اور اخلاقی اقدار کی سطح کو بے نقاب کرتا ہے جو ہم اپنی آنے والی نسل کو دے رہے ہیں۔‘

’یہ رویہ صاف ظاہر کرتا ہے کہ ہم (بطور معاشرہ) اپنے بچوں کو صحیح اور غلط یا اچھے اور برے میں فرق سکھانے میں ناکام رہے ہیں۔ میرا پختہ یقین ہے کہ اس قسم کی سماجی اور اخلاقی تباہی کے لیے والدین اور اسکول انتظامیہ دونوں برابر کے ذمہ دار ہیں۔‘

آل پاکستان پرائیویٹ سکولز فیڈریشن کے صدر کاشف مرزا نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے اس واقعے کی جہاں مذمت کی وہیں انہوں نے یہ بھی اعلان کیا کہ وہ اس مسئلے پر متاثرہ بچی اور ان کے والدین کے ساتھ ہیں اور انہیں اگر کسی قسم کی کوئی قانونی معاونت کی ضرورت ہے تو وہ بھی انہیں فراہم کریں گے اور اس کو ایک ٹیسٹ کیس کے طور پر لیں گے۔ 

کاشف مرزا کا مزید کہنا تھا: ’یہ واقعہ ہم سب کے لیے ایک لمحہ فکریہ بھی ہے کہ ہم اپنی نئی نسل کو کس قسم کی تعلیم و تربیت دے رہے ہیں۔ ہم نے نمبر گیم کے چکر میں انہیں تربیت سے عاری کر دیا ہے۔ ہمارے تعلیمی ادارے بھی تربیت کے عنصر سے عاری ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ سکول بھی اس واقعے میں برابر کا قصور وار ہے کیونکہ جس طرح اس لڑکی پر حملہ ہوا وہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ ان کے اندر کا نظام ہے جس طرح کا ان کا سکیورٹی کا سسٹم تھا یا مانیٹرنگ کا وہ ایک بہت بڑی غفلت کی نشاندہی کرتا ہے۔ 

ان کا کہنا تھا: ’ہم ایک ایسے معاشرے میں رہتے ہیں جس میں ہم بین الاقوامی سطح پر تعلیمی سطح پر 132 ویں نمبر پر ہیں، انصاف کے ادارے 136 ویں نمبر پر، جمہوریت اور جمہوری ادارے 124 ویں نمبر پر ہیں۔ ہمیں واپس جانا پڑے گا اپنے تعلیم کے اس سسٹم میں جہاں تعلیم کے ساتھ تربیت لازم ہوتی تھی۔‘ 

ان کا کہنا تھا: ’اس واقعے کو ٹیسٹ کیس بنانا چاہیے کیونکہ جو رویہ بچیوں کا دیکھا گیا وہ ابتری کی عکاسی کرتا ہے۔ اور اگر یہ جھگڑا واقعی میں منشیات کے استعمال پر ہوا تو یہ اس سے بھی بڑا سوالیہ نشان ہے۔ کیا تعلیمی ادارے خاص طور پر بچیوں کو منشیات اس قدر آسانی سے میسر ہیں تو کیا اب وقت نہیں آگیا کہ ہم اپنی نسلوں کو مزید تباہی سے بچانے کے لیے کسی کو الزام دیے بغیر مل بیٹھیں اور ٹھوس اقدامات کریں۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی کیمپس