لاہور کی تاریخی یونیورسٹی کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی میں نوبیاہتے جوڑے کے فوٹو شوٹ کا معاملہ گذشتہ روز سوشل میڈیا اور مین سٹریم میڈیا پر آنے کے بعد یونیورسٹی کے تین ملازمین کو معطل کر دیا گیا ہے۔
یونیورسٹی انتظامیہ کے مطابق فوٹو شوٹ کا یہ واقعہ یونیورسٹی کے پٹیالہ بلاک میں پیش آیا۔
سوشل میڈیا اور ذرائع ابلاغ پر جب یہ معاملہ سامنے آیا تو آغاز میں یونیورسٹی نے اس پر لاعلمی کا اظہار کیا اور کہا کہ انہیں اس معاملے کے بارے میں کچھ معلوم نہیں لیکن پھر انتظامیہ نے فوری ابتدائی تحقیقات کر کے یونیورسٹی کے گارڈز کو معاملے میں ملوث پا کر مورد الزام ٹھہرا دیا۔
تاہم اب یونیورسٹی کی جانب سے جاری کردہ بیان کے مطابق یونیورسٹی کے وائس چانسلر کے احکامات پر کنگ ایڈورڈ یونیورسٹی کے رجسٹرار ڈاکٹر ریاست علی کی سربراہی میں تین رکنی انکوائری کمیٹی تشکیل دی گئی ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ انکوائری کمیٹی نے یونیورسٹی کے تین ملازمین کو قصور وار ٹھہرا کر فوری طور پر معطل کر دیا ہے۔ معطل کیے جانے والوں میں سکیورٹی سپروائزر صدا حسین، سکیورٹی گارڈ تنویر، اور ڈرائیور آصف شامل ہیں جنہیں واقعے میں ملوث پایا گیا ہے اور ان ملازمین کے خلاف پیڈا ایکٹ کے تحت کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔
یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے جاری بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ’فوٹو گرافر اور شوٹ کروانے والے جوڑے کے خلاف بھی قانونی کارروائی کی جائے گی۔‘
کمیٹی کی ابتدائی تحقیقات میں معلوم ہوا کہ ’فوٹو گرافی کے حوالے سے نہ تو مجاز اتھارٹی کی طرف سے کوئی اجازت دی گئی اور نہ ہی ان اہلکاروں کی طرف سے انکوائری کمیٹی کے سامنے کوئی اجازت پیش کی گئی، لہذا انہوں نے یہ کام خود کیا جس سے اس واقعے میں ان کے ملوث ہونے کا پتہ چلتا ہے۔‘
’انہوں نے جان بوجھ کر کنگ ایڈورڈ کے قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی کی ہے، جو کہ غیر انتظامی اور غیر قانونی ہے۔ ان کی خدمات کو فوری طور پر معطل کیا جاتا ہے اور مذکورہ عہدیداروں کے خلاف پیڈا ایکٹ 2006 کے تحت باقاعدہ انکوائری شروع کی جاتی ہے۔
’فوٹو گرافر اور تمام متعلقہ افراد کے خلاف قانونی کارروائی شروع کی جاتی ہے جنہوں نے فوٹو گرافی کے لیے کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی کے احاطے کو غیر قانونی طور پر استعمال کیا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یونیورسٹی کے رجسٹرار ریاست علی نے انڈُپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ یہ معاملہ یونیورسٹی انتظامیہ کے علم میں بھی منگل کی شام کو آیا جب میڈیا پر خبریں چلیں اور فوٹو شوٹ سوشل میڈیا پر اپ لوڈ ہوا۔
’سننے میں یہ بھی آرہا ہے کہ جس جوڑے نے یہاں فوٹو شوٹ کیا وہ اسی یونیورسٹی کے سابق طالب علم ہیں لیکن اس حوالے سے حتمی کوئی بات سامنے نہیں آئی۔ ہم ابھی اس جوڑے کو ٹریس نہیں کر پائے ہیں۔‘
ریاست علی کا کہنا تھا کہ ’ہم نے تین لوگ معطل کیے ہیں اور ان کی باقائدہ انکوائری کا بھی کہہ دیا ہے، اور جب ان تینوں کی باقائدہ انکوائری پیڈا ایکٹ کے تحت کی جائے گی تو مزید باتیں سامنے آئیں گی۔‘
کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی کے ایک سابق طالب علم ڈاکٹر سلمان کاظمی نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ اس طرح کے فوٹو شوٹ یہاں پہلے بھی خاموشی سے ہوا کرتے تھے۔ وہ کبھی ہائی لائٹ نہیں ہوئے اور نہ کبھی کوئی مسئلہ ہوا۔‘
Sorry, my college isn’t your wedding hall.
— Jamal Awan (@jamalawan42) December 26, 2022
Not a single student of King Edward Medical college is allowed in these grounds, or the library adjacent to it past 5pm but I guess the same restriction doesn’t extend to a photographer trying to reduce this college to a backdrop. 1/n pic.twitter.com/8BYhrFRNkp
ڈاکٹر سلمان کہتے ہیں کہ ’ایسا ہونا نہیں چاہیے تھا۔ سکیورٹی گارڈز کو چاہیے تھا کہ وہ ادارے کی سالمیت کو برقرار رکھتے، اس طرح ایک ادارے کا تقدس پامال ہوتا ہے۔‘
جمال اعوان نامی ایک ٹوئٹر صارف نے 26 دسمبر کو اپنی ایک سلسلہ وار ٹویٹس میں اس فوٹو شوٹ کی ویڈیو اور تصاویر شیئر کرتے ہوئے لکھا تھا کہ ’معاف کیجیے گا، میرا کالج آپ کا شادی ہال نہیں ہے۔‘
انہوں نے اس حوالے سے مزید لکھا تھا کہ ’کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج کے کسی ایک طالب علم کو بھی اس میدان یا اس کے قریب لائبریری میں پانچ بجے کے بعد جانے کی اجازت نہیں ہوتی۔‘
’مگر میرے خیال میں یہ پابندی اس فوٹوگرفر کے لیے نہیں جو اس کالج کو صرف ایک پس منظر تک لے آیا ہے۔‘