وفاقی دارالحکومت کی قائداعظم یونیورسٹی نے کیمپس میں تشدد، قانون ہاتھ میں لینے، تعلیمی عمل میں خلل ڈالنے اور ادارہ جاتی نظم و ضبط کی خلاف ورزی میں ملوث 79 طلبا کی ڈگریاں منسوخ کر دیں۔
اس حوالے سے یونیورسٹی کے رجسٹرار راجہ قیصر نے ٹوئٹر پر بیان بھی جاری کیا ہے۔
Quaid-i-Azam University has expelled/cancelled degrees of 79 students involved in executing on-campus violence, taking law in hand, disturbing academic peace and violating institutional discipline.
— Raja Qaiser Ahmed (@rajaqaiserahmed) March 8, 2023
قائد اعظم یونیورسٹی کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر وقاص سلیم نے اس معاملے پر انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’تعلیمی اصلاحات کی بہت ضرورت ہے۔ طلبہ لڑائی جھگڑے کے بعد قانونی کارروائیوں کا سامنے کرتے ہوئے فیکلٹی اور یونیورسٹی انتظامیہ کو دھمکیاں دیتے رہے جو کہ قانون کے خلاف ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’جو طلبہ کہتے ہیں کہ وہ خود لڑ کر اپنا حق لیں گے تو میں یہ واضح کر دوں کہ آزادی اور لاقانونیت میں فرق ہوتا ہے اور یہ بات ہمیں طلبہ کو سمجھانی بھی ہے اور سکھانی بھی ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’طلبہ بھی قانون سے بالاتر نہیں ہیں کہ انہیں غلط کیے کی سزا نہ دی جائے۔ یونیورسٹی سے عدم برداشت کا رویہ ختم کرنا ہو گا کیونکہ یہاں سے فارغ التحصیل طلبہ ملک کے مختلف شعبوں میں خدمات سرانجام دیتے ہیں تو ان کی تربیت ضروری ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے مزید کہا کہ یہ لڑائی جھگڑا معمولی نوعیت کا نہیں تھا بلکہ تصادم میں ملوث طلبہ ڈنڈوں پر کیل لگا کر لائے تھے جس کا مقصد یقینی طور پر جانی نقصان تھا اس کے علاوہ انہوں یونیورسٹی کے گارڈز کو بھی مارا، زخمیوں کو لے جانے والی ایمبولینس کو نہیں جانے دیا، پروفیسرز کی لیبز میں بھی توڑ پھوڑ کی گئی ہے تو ایسی صورت میں قانون کی عمل داری ناگزیر تھا۔‘
یونیورسٹی ہاسٹل طالبہ مریم (فرضی نام) نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ وہ ایم فل کی طالبہ ہیں اور یونیورسٹی ہاسٹل میں رہائش پذیر ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’ہم تو کسی جھگڑے میں ملوث نہیں اور نہ ان کا کوئی قصور تھا لیکن پھر بھی کونسلز کی لڑائی میں ہمیں بھی آدھی رات کو ہاسٹل سے بے دخل کیا گیا، اس لیے اگر تعلیمی نظام میں خلل ڈالنے والے عناصر کے خلاف کارروائی بہت اچھا قدم ہے تاکہ انہیں احساس ہو یونیورسٹی لڑائی جھگڑے کی جگہ نہیں بلکہ پڑھائی کرنے کی جگہ ہے جہاں ہم دور دراز سے آئے طلبہ فیس دے کر پڑھ رہے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ایک فیصد عناصر کی وجہ سے 99 فیصد طلبہ کے لیے بھی یونیورسٹی اور ہاسٹل بند ہونا ناانصافی ہے۔ اس لیے بہتر ہے ان ایک فیصد کے خلاف کارروائی ہو تاکہ مستقبل میں ایسے واقعات نہ ہوں۔‘
گذشتہ ماہ فروری کے آخری ہفتے میں یونیورسٹی طلبہ کی لسانی تنظیموں میں جھگڑے کے بعد قائداعظم یونیورسٹی کو تاحکم ثانی بند کردیا گیا تھا۔
جس کے بعد جامعہ انتظامیہ نے اسلام آباد پولیس کی مدد سے صورت حال کو قابو میں کرنے کی کوشش کی اور تاحکم ثانی یونیورسٹی اور تمام 13 ہاسٹلز بھی حالی کروا لیے گئے تھے۔