قابل اعتراض سوال گوگل سرچ سے نکالا گیا تھا: کامسیٹس یونیورسٹی

جامعہ سے ملنے والی معلومات کے مطابق انکوائری میں لیکچرار خیر البشر نے قابل اعتراض سوال کی توجیح پیش کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے گوگل سرچ سے سوال لیا اور پرچے میں شامل کر دیا تھا۔

کامسیٹس یونیورسٹی اسلام آباد (یونیورسٹی ویب سائٹ)

گذشتہ سمسٹر امتحان میں کامسیٹس یونیورسٹی کے شعبہ انجینیئرنگ کے طلبہ سے قابل اعتراض مضمون لکھنے کا کہا گیا۔ سوشل میڈیا پر دو ماہ بعد پرچہ وائرل ہو کر موضوع بحث بن گیا۔

یونیورسٹی طلبہ سے ملنے والی معلومات کے مطابق ’انگلش کے پرچے میں جب یہ سوال پوچھا گیا تو تمام طلبہ حیران پریشان تھے کہ یہ کیسا اخلاق سے عاری سوال ہے اور اس سوال پہ کیا جواب لکھیں۔‘ تاہم طلبہ نے جیسا تیسا پرچہ مکمل کیا اور پھر یونیورسٹی انتظامیہ کو لیکچرر کی شکایت کی جس کے بعد یونیورسٹی انتظامیہ نے پہلا پرچہ ضائع کر کے طلبہ کا دوبارہ کویز لیا۔ 

کامسیٹس یونیورسٹی کے قائم مقام رجسٹرار سجاد مدنی نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’جامعہ کے علم میں پانچ جنوری کو آیا کہ لیکچرار خیر البشر نے قابل اعتراض سوال والا پرچہ بنایا ہے، طلبہ نے شعبے کی سربراہ سے شکایت کی تھی جس کے بعد وہ یہ معاملہ جامعہ کے ریکٹر کے علم میں لے آئے۔ پھر بعد ازاں انہوں نے اپنی غلطی تسلیم کر لی۔‘

سجاد مدنی نے مزید بتایا کہ ’اسی دن میٹنگ بلائی گئی اور لیکچرار سے انکوائری کی گئی کہ انہوں نے کیا سوچ کر قابل اعتراض سوال کو پرچے کا حصہ بنایا۔ جس کا جواب انہوں نے یہ دیا کہ گوگل پر یہ سوال میسر ہے یہ ان کے اپنے ذہن کی اختراع نہیں ہے۔‘

رجسٹرار سے جب سوال کیا کہ کیا شعبے کے سربراہ امتحانی پرچے پبلش ہونے پہلے حتمی طور پر چیک نہیں کرتے؟ اس سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ’ایسا سالانہ امتحان میں ہوتا ہے لیکن یہ کلاس کویز تھا جس میں ٹیچر نے خود فیصلہ کرنا ہوتا ہے، اور وہ اپنی کلاس کے لیے سوال پرنٹ کروا کر لائے ہوئے تھے۔‘

 

یونیورسٹی سے برخاست ہونے والے لیکچرار سے رابطہ کرنے اور ان کا موقف جاننے کی کوشش کی لیکن ان سے رابطہ نہیں ہو سکا۔ جاری نوٹیفیکیشن کے مطابق گذشتہ ماہ پانچ جنوری کو کامیسٹس یونیورسٹی انتظامیہ نے پرچے میں قابل اعتراض سوال شامل کرنے کے ذمہ دار قرار دیتے ہوئے وزیٹنگ لیکچرار خیر البشر کو نوکری سے برخاست کر دیا اور وزیٹنگ لیکچرار خیر البشر پر کامسیٹس میں آئندہ نوکری پر پابندی بھی عائد کی گئی ہے۔

سوشل میڈیا پرصحافی انیقہ نثار نے پرچے میں درج سوال کو ناپسند کرتے ہوئے کہا کہ ’صرف وفاقی وزیر کا نوٹس لینا کافی نہیں بلکہ وزیر تعلیم کو اس معاملے پر سخت ایکشن لینا ہو گا۔‘

سوشل میڈیا صارف سلمان جاوید نے کہا کہ ’اس انکوائری کا جو بھی نتیجہ نکلے، اس فرد کو جس نے طلبہ میں بےحیائی کے اس خیال کو پھیلانے کی کوشش کی اسے پکڑ کر علمی برادری کے لیے ایک مثال بنانا چاہیے۔ نہ صرف وہ خاص فرد بلکہ وہ تمام لوگ جنہوں نے اس کویز پر کارروائی کی اور اسے منظور کیا۔‘

 

جامعہ سے ملنے والی معلومات کے مطابق انکوائری میں لیکچرار خیر البشر نے قابل اعتراض سوال کی توجیح پیش کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے گوگل سرچ سے سوال لیا تھا اور پرچے میں شامل کر دیا۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

دوسری جانب وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی نے طلبہ سے غیراخلاقی سوال کے واقعے کا نوٹس لیا۔ وفاقی وزیر نے خط میں لکھا کہ 'بیچلر آف الیکٹریکل انجینئرنگ کے طلبہ کا پیپر چار دسمبر 2022 کو ہوا۔ امتحان میں پوچھا گیا سوال انتہائی قابل اعتراض اور پاکستانی قوانین کے خلاف ہے۔ پرچے میں قابل اعتراض سوال پر طلبہ اور والدین میں سخت بے چینی پائی جاتی ہے۔ لہٰذا ریکٹر کامسیٹس یونیورسٹی ذمہ داروں کا تعین کر کے سخت سزائیں دیں۔ وفاقی وزیر نے ایڈیشنل سیکرٹری کو تحقیقاتی کمیٹی کی سربراہی کرنے کا کہا۔ وفاقی وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی نے خط کی ایک نقل سینیٹ کمیٹی برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کو بھی بھجوا دی ہے۔ 

اسسٹنٹ پروفیسر وقاص سلیم نے اس موضوع پر انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہ ،جب امتحانی سوال بنائے جاتے ہیں تو یہ دیکھا جاتا ہے کہ طالب علم اس سے کیا سیکھے گا۔ یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ معاشرتی حالات میں اس نظریے کو کیسے دیکھا جائے گا۔ پاکستان کے سیاق و سباق میں مذہبی و ثقافتی ورثے کو مدنظر رکھتے ہوئے سوال بنائے جاتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ’یہ سوال فیملی ویلیوز کے حوالے لوگوں کو ناگوار گزرا ہے۔ انگریزی کے پرچے میں تو طلبہ کی انگریزی جانچی جاتی ہے اس میں ایسے موضوعات کو چھیڑنے کی ضرورت ہی نہیں تھی۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی کیمپس