پاکستان میں سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹوئٹر پر ایبٹ آباد کی کامسیٹس یونیورسٹی ٹرینڈز کی زینت بنی ہوئی ہے، جہاں یونیورسٹی میں پانچ دسمبر کو ہونے والے ایک کانسرٹ پر بحث جاری ہے۔
یونیورسٹی کی سوسائٹی ’فن کدہ‘ نے پانچ دسمبر کو کیمپس میں پاکستانی اداکار اور گلوکار فرحان سعید کا کانسرٹ منعقد کر رکھا ہے، جس کے خلاف ٹوئٹر پر مہم جاری ہے اور اسے منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ تاہم یونیورسٹی کے میڈیا کوآرڈینیٹر نصیر احمد کا کہنا ہے کہ ’انتظامیہ نے اعتراض کرنے والے دھڑوں سے بات چیت کی ہے اور کانسرٹ اپنے مقررہ وقت پر ہوگا۔‘
’فن کدہ‘ کے انچارج اور محکمہ مینیجمنٹ سائنسز کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر شاکر حفیظ کے مطابق کرونا وبا کے بعد طالب علموں کے لیے یہ پہلی سرگرمی ہے۔ انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ کانسرٹ کے ٹکٹ کی قیمت ایک ہزار سے دو ہزار روپے مقرر کی گئی ہے اور اس سے حاصل ہونے والی رقم کو 2008 میں آنے والے زلزلے کے متاثرین کے بچوں کی تعلیم پر خرچ کیا جائے گا۔
تاہم اس کانسرٹ کے بارے میں خبر پھیلنے کے فوراً بعد ہی سوشل میڈیا پر اس کے خلاف ایک مہم شروع ہوگئی اور #Ban_Obscenity_in_ComsatsAtd کے نام سے ٹوئٹر ٹرینڈ چل پڑا۔
اس ٹرینڈ پر جمعے کی دوپہر تک 11 ہزار سے زائد ٹویٹس ہو چکی تھیں۔
حنظلہ داؤد نامی ایک صارف نے ڈپٹی کمشنر ایبٹ آباد کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا کہ ’کیا آپ کو یاد نہیں کہ 2012 میں لاہور کی ایک طالبہ کیسے اپنی جان کھو بیٹھی تھیں الحمرہ ہال میں؟ اس کانسرٹ سے کیا فائدہ ہوگا؟‘
Oh @DC_abbottabad shb where is rule of law ?
— Hanzala Daud (@HanzalaDaud) December 2, 2021
Dont you remember the death of female students in a concert in 2012 in alhamra hall Lahore... What is the single gain of this concert ???#Ban_Obscenity_in_ComsatsAtd pic.twitter.com/qsxKrgMQnX
حنائے نامی صارف نے کہا کہ ایسے کانسرٹس پر پابندی ہونی چاہیے، جو مردوں اور خواتین کو مخلوط ڈانس کی اجازت دیتے ہیں۔
Firstly, Govt. should ban such concerts that are prevailing shameless content to general public. Secondly, what the hack is to allow dancing of male and female together. Congratulations we're living in Ryasat-e-Madina #Ban_Obscenity_in_ComsatsAtd#VickyKatrinaWedding #دسمبر pic.twitter.com/h3BKQbnA51
— HinaaY (@MasiMuseebty) December 3, 2021
اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کے نامور صحافی انصار عباسی نے بھی اس حوالے سے ایک ٹویٹ کی، جس میں ان کا کہنا تھا کہ وہ بھی اس ٹرینڈ کو سپورٹ کرتے ہیں۔
I support the trend #Ban_Obscenity_in_ComsatsAtd
— Ansar Abbasi (@AnsarAAbbasi) December 2, 2021
کچھ صارفین نے کانسرٹ کے حق میں بھی ٹویٹ کی۔
فرقان نامی صارف نے اعتراض کرنے والے ایک صارف کی ٹویٹ پر اپنے ردعمل میں کہا کہ ’اگر کسی کو کانسرٹ نہیں پسند تو وہ نہ آئیں۔‘
If you do not like , stay at home then !
— FurKuan (@ThePizzaAteMe) December 2, 2021
آشو نامی ایک صارف نہ کہا کہ کانسرٹ کئی یونیورسٹیز میں ہوتے ہیں اور ’اس میں کوئی بڑی بات نہیں۔‘
Concerts are held in many universities. No big deal.
— Ashoo (@Ashoo29346422) December 3, 2021
یونیورسٹی کا موقف
رابطہ کرنے پر کامسیٹس یونیورسٹی ایبٹ آباد کے میڈیا کوآرڈینیٹر نصیر احمد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ انتظامیہ کی کانسرٹ پر اعتراض کرنے والے زیادہ تر طلبہ سے ملاقات ہو چکی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ’اعتراض کرنے والے طلبہ کا مدعا یہ تھا کہ اس کانسرٹ کو بند ہال میں ہونا چاہیے اور باہر کے لوگوں کی شمولیت کو روکا جانا چاہیے، جس پر یونیورسٹی انتظامیہ نے انہیں یقین دہانی کروائی ہے کہ باہر کے لوگوں کو اجازت نہیں ہوگی اور کانسرٹ کو اوپن ایئر کی بجائے اب یونیورسٹی ہال میں کروایا جائے گا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جب ان سے ٹوئٹر ٹرینڈ کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا: ’ہم نے اپنی طرف سے مذاکرات کر لیے تھے لیکن سوشل میڈیا پر ابھی تک ٹرینڈ یہ بتا رہا ہے کہ شاید وہ ہماری بات سے مطمئن نہ ہوئے ہوں لیکن ہم کوشش کر رہے ہیں کہ ان کی بات پر غور کیا جائے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ یونیورسٹی ہر طبقے کے لوگوں کو ساتھ لے کر چلنے کی کوشش کرتی ہے۔ ’کچھ عرصے پہلے یونیورسٹی نے سیرت کانفرنس کا پروگرام منعقد کروایا تھا اور پانچ دسمبر کو ایک کانسرٹ کروانے والے ہیں، جس میں کامسیٹس یونیورسٹی کے سابق اور موجودہ طلبہ شامل ہوں گے اور اسی طرح 11 دسمبر کو شعرا کو بھی دعوت دی گئی ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ کانسرٹ کے لیے سکیورٹی موجود ہے اور یہ کانسرٹ اپنے وقت اور تاریخ کے مطابق ہوگا۔