ترکی: سلطان مہمت فاتح کی میت کے ساتھ کیا ہوا؟

ترک تاریخ کے سب سے طاقتور سلطان مہمت فاتح کی میت کو اقتدار کے لالچ میں یکسر فراموش کر دیا گیا اور جب بعد میں یاد آیا تو بدقسمتی سے لاش گل سڑ گئی تھی، جسے غسل دے کر دفن کر دیا گیا۔

سلطان مہمت کی تدفین کے مناظر (انڈپینڈنٹ ترکیہ)

عباسی سلطنت کے شاہ سلطان مہمت فاتح کا انتقال تین مئی 1481 کو ہوا جب وہ ٹیکفور محل کے آس پاس مملوکوں کے خلاف مہم پر تھے، جو آج کل ترکی کا گیبز کا علاقہ کہلاتا ہے۔

وہ صرف 51 برس کے تھے، جب ان کا انتقال ہوا۔ سلطان کی میت خفیہ طور پر استنبول بھیجی گئی۔

جب کچھ عرصے بعد اقتدار کی کشمکش شروع ہوئی تو ریاستی معززین بدقسمتی سے سلطان مہمت فاتح کی میت کو بھول گئے۔

اس سے بھی بدتر بات یہ ہے کہ جب سلطان کی میت کو غسل دیا گیا تو اس وقت تک ان کا جسم گلنا سڑنا شروع ہو گیا تھا۔

پروفیسر اسماعیل حقی ازانکارسلی کے مطابق: ’کوئی بھی قریب نہیں جا سکتا تھا کیونکہ میت سے، جو گرمی میں کپڑوں سے دس دن سے زائد تک ڈھکی رہی تھی، بدبو آ رہی تھی۔‘

تین مئی 1481 کو ان کی موت بھی پراسرا رہی۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ شاید ان کی موت بھی بیٹے بازیت کی جانب سے زہر دینے سے ہوئی، تاہم کچھ کے مطابق یہ قدرتی موت تھی۔

 

سلطان مہمت فاتح، جو دوسرے مراد خان کی ترک بیوی ہما سلطان کے ہاں پیدا ہوئے تھے، ہمیشہ سے ایک خاص بچے رہے تھے۔

ان کی تعلیم اور ذاتی صلاحیتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ عثمانی سلاطین میں سے کوئی بھی سلطان ان کے علم کی بلندیوں تک نہیں پہنچ سکا۔

اپنے بھرپور پس منظر کے باوجود، نوجوان شہزادے نے اپنی تعلیم کے پہلے دور میں بڑی مشکلات کا سامنا کیا اور اساتذہ کی تمام تر کوششوں کے باوجود شہزاد مہمت لکھ پڑھ نہ سکے اور نہ ہی کوئی ترقی کر سکے۔

تاریخ دان سہیل یونور نے ’سائنس اور آرٹ کی ہماری تاریخ میں فاتح سلطان محمد ہان‘ کے عنوان سے اپنی تحریر میں سلطان کی جانب سے مقرر کیے جانے والے استاد مولا گورانی کا ذکر کرتے ہیں۔ ’مولا گورانی جو سنجیدہ ہیں اور نہ پڑھنے والوں کے لیے نرم دل نہیں، نوجوان شہزادے کے لیے اپنے پہلے سبق میں چھڑی کے ساتھ داخل ہوئے (اور کہا) اگر آپ نے پڑھنے میں یکسانیت نہیں دکھائی تو میں آپ کے والد سلطان کے حکم سے اسے (چھڑی کو) استعمال کرنے کا پابند ہوں گا۔‘

مولا گورانی کی طرف سے نوجوان شہزادے کو دی گئی تعلیم نے ان میں سیکھنے کی خواہش کو بیدار کیا۔

سلطان کی برداشت کا انتظام اور قائدانہ خصوصیات   

سلطان مہمت فاتح نے استنبول کو فتح کرنے کے بعد ایک رواداری کی انتظامیہ قائم کی، جس کی مثال تاریخ میں بہت کم ملتی ہے۔

مصر، کردستان، ایران اور یورپ کے بہت سے علما فاتح کی درخواست اور دعوت پر استنبول روانہ ہوئے تھے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس زمانے میں نہ صرف مسلمان فنکاروں اور علما بلکہ غیر ملکی فنکاروں اور سائنس دانوں کی بھی بہت عزت کی جاتی تھی۔

مثال کے طور پر استنبول کی فتح کے بعد بازنطینی مصور سیوانی کریسولورا کی ساس اور بیٹی غلاموں کی منڈی میں فروخت کے لیے پہنچ گئیں۔ آخری حربے کے طور پر، سیوانی نے فاتح سلطان مہمت کو ایک خط کے ذریعے صورت حال کی اطلاع دی۔ جیسے ہی سلطان کو اس کا علم ہوا، انہوں نے سیوانی کی ساس اور بیٹی کو بچا کر ان کے حوالے کر دیا۔ انہوں نے سیوانی کو یہ بھی بتایا کہ اگر وہ چاہیں تو استنبول میں آزادی سے اپنی سرگرمیاں جاری رکھ سکتے ہیں۔

سائنسی معاملات میں مہمت کی دلچسپی ان کی ذاتی لائبریری میں بھی جھلکتی تھی۔ انہوں نے پوری دنیا سے قیمتی کام جمع کیے اور انہیں سلطنت عثمانیہ کے سائنسی ذخیرے تک پہنچایا اور ایک بھرپور لائبریری قائم کی۔

انجیولولو نے اپنے مشہور عثمانی تاریخ کے مطالعے میں اس بھرپور لائبریری کو اس طرح بیان کیا: ’انہوں نے یہاں ہزاروں کتابیں جمع کیں اور تفسیر کی کتابیں ہر دوسری مساجد میں تقسیم کیں جو انہوں نے قائم کی تھیں۔ ان میں سے زیادہ تر کتب ان کے مصنفین کی ہینڈ رائٹنگ میں لکھی گئی تھیں اور وہ ان مساجد میں سے ہر ایک کے عہدیداروں اور اساتذہ کے لیے اہم معلومات تھیں۔‘

تاریخ کے مطابق سلطان مہمت فاتح کے اپنے بیٹے بیازیت نے اپنے والد کی وفات کے بعد اس لائبریری میں موجود بہت سا قیمتی کام تقسیم کر دیا اور مولا لطفی کو، جنہیں فاتح نے لائبریری کی ذمہ داری سونپی تھی، بدعتی قرار دے کر قتل کر دیا۔

میت کے ساتھ کیا ہوا؟

ترک تاریخ کو چھوڑیں، دنیا کی تاریخ میں ایک منفرد حکمران پر آنے والی مصیبت اقتدار کے لیے جدوجہد تھی۔ بیازیت اپنے چھوٹے سوتیلے بھائی سیم سلطان کے ساتھ لڑ پڑے۔ اس لڑائی میں فاتح نے اپنی پسند ظاہر کی۔ وہ چاہتے تھے کہ سیم سلطان ہی سلطان بنیں۔

سیم کی بدقسمتی یہ تھی کہ اس ایلچی کو، جو خط لے کر گیا تھا جس میں بتایا گیا تھا کہ سلطان کی وفات ہوگئی ہے، راستے میں ہی بیازیت کے آدمیوں نے پکڑ کر مار ڈالا۔

اگرچہ سیم نے برسا میں اپنی سلطنت کا اعلان کر دیا تھا لیکن شکست کی وجہ سے یہ سلطنت ٹوٹ گئی۔

اپنے بڑے بھائی بیازیت کے ہاتھوں شکست کھانے کے بعد، سیم نے اپنی باقی ماندہ زندگی جلاوطنی اور سفر کرتے ہوئے ایک قیدی کے طور پر گزار دی۔

وہ اپنے بیٹے اوزھان اور بیوی کو مصر میں چھوڑ کر اڈانا آئے، لیکن جب انہیں بغاوت کرنے کے لیے کافی قوتیں نہ ملیں تو انہوں نے بلقان جانے کا فیصلہ کیا۔ اس سفر کے دوران وہ نائٹ پیئر ڈی آوبسن کے ہتھے چڑھ گئے اور قیدی بنا لیے گئے۔ تمام اچھے سلوک کے باوجود سیم سلطان ایک قیدی تھے۔ انہوں نے اپنے بڑے بھائی بیازیت کو لکھے گئے خطوط میں اپنے تجربات کی عکاسی کی۔

جب سیم کا جلاوطن کے طور پر انتقال ہوا تو بعض مورخین کا کہنا ہے کہ یہ قدرتی موت تھی جب کہ بعض کا دعویٰ ہے کہ انہیں بیازیت نے ہی قتل کیا تھا۔

مختصر یہ کہ ترک تاریخ کے سب سے طاقتور سلطان مہمت فاتح کی میت کو اقتدار کے لالچ میں یکسر فراموش کر دیا گیا اور جب بعد میں یاد آیا تو بدقسمتی سے لاش گل سڑ گئی تھی، جسے غسل دے کر دفن کر دیا گیا۔

یہ تحریر اس سے قبل انڈی ترکیہ پر شائع ہوچکی ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی تاریخ