الیکشن 90 دن میں نہ ہونا بھی قانونی تقاضا ہے

یہ تو ہم جانتے ہیں کہ 90 دن میں الیکشن کرانا آئینی تقاضا ہے لیکن کیا ہم اس حقیقت سے بھی آگاہ ہیں کہ اس وقت 90 دن میں الیکشن نہ کرانا بھی ایک قانونی تقاضا ہے؟ بظاہر یہ بات عجیب سی لگتی ہے مگر یہی حقیقت ہے۔

25 جولائی، 2018 کو لاہور میں عام انتخابات کے دوران ایک سکیورٹی اہلکار پولنگ سٹیشن پر پہرہ دے رہا ہے (اے ایف پی)

یہ تو ہم جانتے ہیں کہ 90 دن میں الیکشن کرانا آئینی تقاضا ہے لیکن کیا ہم اس حقیقت سے بھی آگاہ ہیں کہ اس وقت 90 دن میں الیکشن نہ کرانا بھی ایک قانونی تقاضا ہے؟ بظاہر یہ بات عجیب سی لگتی ہے مگر یہی حقیقت ہے۔

آئین میں صرف یہ نہیں لکھا کہ الیکشن 90 دن میں ہوں گے۔ آئین میں اس بارے میں پورے دو ابواب موجود ہیں۔ ان ابواب میں درج تمام شقیں اتنی ہی معتبر ہیں جتنی 90 دن میں الیکشن والی بات۔ ایسے میں اگر بات الجھ جاتی ہے تو قانون کی روح کسی ایک شق سے برآمد نہیں ہو گی، اسے قانون کے مجموعی مطالعے سے اخذ کیا جائے گا۔

الیکشن کے انعقاد کا ایک پورا نظام ہے جو پارلیمان نے مختلف ادوار میں قانون سازی سے مرتب کیا ہے۔ اس میں یہ اصول بھی ہے کہ الیکشن 90 دن میں ہو گا اور یہ اصول بھی ہے کہ الیکشن سے پہلے نگران حکومت قائم کر دی جائے گی تاکہ کوئی جماعت الیکشن پر اثر انداز نہ ہو سکے۔ شفافیت کو یقینی بنانے کے لیے یہ بھی طے پا چکا ہے کہ نگران حکومت کا کوئی وزیر الیکشن میں حصہ نہیں لے سکے گا۔

یعنی انتخابی جورسپروڈنس کے یہ دو بنیادی صول ہیں۔ الیکشن مقررہ وقت پر ہوں گے اور الیکشن غیر جانب دار نگران حکومت کی موجودگی میں ہوں گے۔ اب فرض کریں پنجاب اسمبلی میں 90 دن کے اصول پر الیکشن ہوتے یا ’کم از کم تاخیر‘ کے فارمولے پر یہ جون جولائی اگست میں ہو جاتے ہیں تو کیا ہو گا۔

ان کے نتیجے میں ایک نئی حکومت وجود میں آ جائے گی ۔ قومی اسمبلی کی مدت ابھی باقی ہے۔ اس کے الیکشن کہیں اکتوبر میں جا کر ہوں گے۔ اب جب قومی اسمبلی کے الیکشن کی نوبت آئے گی تو پنجاب میں ایک باقاعدہ حکومت موجود ہو گی۔ انتخابات کے لیے نگران حکومت کا ہونا ضروری ہے۔ نگران حکومت کی بجائے باقاعدہ حکومت کے تحت الیکشن کیسے ہوں گے؟

پنجاب سب سے بڑا صوبہ ہے۔ قومی اسمبلی میں اس کی کل نشستیں 183 ہیں۔ بلوچستان سے قومی اسمبلی کی کل نشستیں 17، کے پی سے 43 اور سندھ سے 75 ہیں۔ اب اگر 183 نشستوں پر الیکشن نگران حکومت کی بجائے کسی ایک سیاسی جماعت کی باقاعدہ حکومت کی موجوگی میں ہوتا ہے تو یہ شفافیت کے اس بنیادی اصول کی پامالی ہے جو قانون میں طے کر دیا گیا ہے۔ یاد رہے کہ آئین اور الیکشن ایکٹ کی تقابلی اہمیت سے قطع نظر، نگران حکومت ہماری انتخابی بندوبست کا ایک بنیادی عامل ہے۔

نگران حکومت کی موجودگی میں قومی اسمبلی کا الیکشن وفاق کی تمام اکائیوں کا حق ہے۔ بعد میں سینیٹ کا الیکٹورل کالج بھی بننا ہے۔ ایسے میں اگر عام انتخابات کے وقت ایک حکومت 183 نشستوں پر اثر انداز ہو رہی ہو تو اس سے وفاق مستحکم ہو گا یا کمزور؟

ایک زمانے میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے الیکشن الگ الگ دنوں میں ہوتے تھے۔ اس سے یہی قباحت پیدا ہوئی کہ پہلے الیکشن کے نتائج دوسرے الیکشن پر اثر انداز ہونے لگے۔

 مثال کے طور پر اگر قومی اسمبلی کے الیکشن جمعے کو ہوتے ہیں اور ایک جماعت جیت جاتی ہے تو دو دن بعد صوبائی اسمبلی کے الیکشن پر اس جیتی ہوئی جماعت کے اثر انداز ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ چنانچہ اہل سیاست نے یہ فیصلہ کیا کہ قومی اور صوبائی اسمبلی کے الیکشن ایک ہی روز ہوا کریں گے۔

اب اگر موجودہ صورت حال میں پنجاب میں الیکشن قومی اسمبلی کے الیکشن سے دو تین ماہ پہلے ہو جاتے ہیں تو اس کا مطلب ہے وہ انتخابی بندوبست بکھر جائے گا جس کا تعلق ہمارے انتخابی قانون سے بھی ہے اور انتخابات سے متعلق پارلیمانی روایات سے بھی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس کا ایک حل یہ ہو سکتا ہے کہ سندھ، بلوچستان کی اسمبلیاں اور قومی اسمبلی بھی تحلیل کر دی جائے تاکہ سب کا الیکشن ایک ساتھ ہو۔ یہ اصول مگر رضاکارانہ طور پر تو لاگو ہو سکتا ہے لیکن کسی کو مجبور نہیں کیا جاسکتا کہ وہ اپنی اسمبلی وقت سے پہلے تحلیل کر دے۔ 

سندھ اسمبلی سندھ کے لوگوں کے مینڈیٹ سے آئی ہے، بلوچستان اسمبلی کے پاس بلوچستان کا مینڈیٹ ہے۔ وفاق کی ان دو اسمبلیوں کو کسی ایک رہنما کی خواہش کی تکمیل پر قبل از وقت تحلیل ہو جانے کا حکم کیسے دیا جا سکتا ہے؟ وہ بھی اتنے ہی پاکستانی ہیں جتنا کوئی اور۔ ایسا کوئی مطالبہ ظاہر ہے کہ قومی اسمبلی سے بھی نہیں کیا جا سکتا۔

وقت سے پہلے اسمبلیوں کی تحلیل سے جو پیچیدگی پیدا ہوئی ہے، اس کا تعلق محض قانون اور آئین کی کسی ایک شق سے نہیں کہ اس ایک شق کا اطلاق کر دیا جائے تو مسئلہ حل ہو جائے گا۔ اس کا تعلق جورسپروڈنس سے ہے۔

فل کورٹ بنا دی جاتی اور چند جج صاحبان کی بجائے ساری سپریم کورٹ جورسپروڈنس کے اس نکتے پر غور کرتی تو یہ مسئلہ احسن طریقے سے حل ہو سکتا تھا۔ اب مگر ڈور الجھ چکی ہے اور اس الجھی ڈور کا کوئی سرا کسی کے ہاتھ میں نہیں آ رہا۔

اس کے سلجھانے کا کوئی قانونی حل سر دست موجود نہیں ہے۔ ایک ہی حل ہے کہ اہل سیاست مل بیٹھیں اور مناظرے کی کیفیت سے نکل کر مکالمے کے آداب کے تحت ا یک دوسرے کی بات کو سمجھنے کی کوشش کریں۔

آئین اور قانون اقوال زریں کا مجموعہ نہیں ہوتے کہ کوئی ایک سنہرا قول اٹھا کر تازیانہ بنا لیا جائے۔ یہ ایک مربوط بندوبست ہوتا ہے جسے اس کے مکمل تناظر میں دیکھا جانا چاہیے۔

نوٹ: یہ تحریر لکھاری کی ذاتی آرا پر مبنی ہے اور ادارے کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ