مصنوعی ذہانت کی ایک فرم کے بانی نے خبردار کیا ہے کہ روبوٹ انسانیت کو کنٹرول کر سکتے ہیں۔
تین سال قبل ’سٹیبلٹی اے آئی‘ نامی کمپنی کی بنیاد رکھنے والے 40 سالہ عماد مستک کا ماننا ہے کہ ’بدترین صورت حال‘ میں سے ایک صورت یہ ہو سکتی ہے جب انسانوں کو ’الوداع‘ کرتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ ’آپ بہت ہی بورنگ ہیں۔‘
عماد مستک بنگہ دیشی نژاد برطانوی شہری ہیں جن کا کہنا ہے کہ حکومتیں جلد ہی مشینوں کو ریگولیٹ کرتے وقت کسی ایک ایسے واقعے سے چونک سکتی ہیں جو اچانک ان کے (منفی) اثرات کو حقیقی بنا دے گا۔
بی بی سی کے پروگرام ’لورا کونسبرگ آن سنڈے‘ کے ساتھ ایک انٹرویو میں ان کا کہنا تھا: ’اگر آپ سے زیادہ قابل کوئی چیز ہے، تو اس قسم کے ماحول میں جمہوریت کیسے ہو گی؟‘
ان کے بقول: ’یہ ایک معروف بے خبری ہے کیوں کہ ہم خود سے زیادہ قابل کسی چیز کا تصور نہیں کر سکتے لیکن ہم سب اپنے سے زیادہ قابل لوگوں کو جانتے ہیں۔‘
ان کا مزید کہنا تھا: ’میرا ذاتی خیال ہے کہ یہ سکارلیٹ جوہانسن اور جوکین فینکس کی فلم ’ہر‘ (Her) کی طرح کی صورت حال ہوگی، انسان تھوڑے بورنگ ہوتے ہیں اور ایسا ہو گا کہ وہ کہیں گے ’الوداع، آپ بورنگ قسم کے لوگ ہیں‘ لیکن میں غلط بھی ہوسکتا ہوں۔
ان کے بقول: ’اسے عوامی حلقوں میں زیر بحث لانا چاہیے، اگر ہمارے ایجنٹ (مشینیں) ہم سے زیادہ قابل ہیں جن کو ہم کنٹرول نہیں کر سکتے، جو انٹرنیٹ پر ہیں اور جڑے ہوئے ہیں اور وہ آٹومیشن کی صلاحیت حاصل کر لیتے ہیں، تو اس کا کیا مطلب ہے؟‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’بدترین صورت حال یہ ہو سکتی ہے کہ یہ پھیل جائے اور بنیادی طور پر یہ انسانیت کو کنٹرول کرے کیوں کہ آپ کے پاس لاکھوں چیزیں مؤثر طریقے سے نقل ہوسکتی ہیں لیکن ہم اس بارے میں نہیں جانتے۔‘
ان کا خیال ہے کہ جب اداکار ٹام ہینکس مارچ 2020 میں کرونا کے مرض میں مبتلا ہوئے تھے تو یہ وہی لمحہ تھا جب لاکھوں لوگوں نے اس وبائی مرض کے خطرے کو سنجیدگی سے لیا۔
ان کا دعویٰ ہے کہ جب مصنوعی ذہانت کے حوالے سے بھی ایسا ہی لمحہ آئے گا تو حکومتیں اس نتیجے پر پہنچیں گی کہ ’ہمیں ابھی پالیسی کی ضرورت ہے۔‘
ان کا خیال ہے کہ نئی مشینوں کا اثر ’تکلیف دہ‘ ہوسکتا ہے اور معیشت پر ان کا اثر وبائی امراض کی وجہ ہونے والے نقصان سے بھی زیادہ ہوسکتا ہے۔
تاہم وہ سوچتے ہیں کہ جو ملازمتیں ختم ہو جائیں گی ان کی جگہ بہتر ملازمتیں لے لیں گی کیوں کہ مشینیں معمولی سے معمولی کام بھی کریں گی جس سے ہمیں ان چیزوں پر توجہ مرکوز کرنے کی مدد ملے گی جو ہمیں انسان بناتی ہیں۔
ان کا دعویٰ ہے کہ نئی ٹیکنالوجی ’بہت زیادہ‘ فوائد بھی لا سکتی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے مزید کہا کہ چیٹ جی پی ٹی اور ڈیپ مائنڈ جیسی کمپنیاں 10 سال میں گوگل اور فیس بک کو پیچھے چھوڑ دیں گی۔
عماد مستک کی فرم سٹیبلٹی اے آئی کی مالیت پہلے ہی ایک ارب ڈالر ہے جو جلد ہی چار ارب ڈالر کا ہندسہ عبور کر سکتی ہے کیوں کہ ہالی وڈ سٹار ایشٹن کچر سمیت کئی لوگ اس میں اپنا پیسہ لگا رہے ہیں۔
کمپنی نے ’سٹیبل ڈیفیوژن‘ نامی ایک ایسا ٹول بنایا ہے جو مصنوعی ذہانت کا استعمال کرتے ہوئے آن لائن ملنے والی تصاویر کا تجزیہ کر کے ایک سادہ ٹیکسٹ ہدایات سے تصاویر بنا سکتا ہے۔
عماد مستک جو ایک ریاضی دان بھی ہیں، اپنی ٹیکنالوجی کو اوپن سورس رکھنے کے لیے پرعزم ہیں۔ وہ کسی کو بھی کوڈ کو دیکھنے، اسے شیئر کرنے اور استعمال کرنے کی اجازت دیتے ہیں۔
ان کا خیال ہے کہ اس سے عوام کو یہ اعتماد ملنا چاہیے کہ ٹیکنالوجی زیادہ خطرناک نہیں ہو گی۔
ان کے بقول: ’میرے خیال میں اعتماد کی ضرورت ہونی چاہیے۔‘
ان کا ماننا ہے کہ ’اگر آپ کھلے ماڈل بناتے ہیں اور آپ اسے عام کرتے ہیں تو اگر آپ غلط کام کرتے ہیں تو آپ پر تنقید کی جانی چاہیے اور امید ہے کہ اگر آپ کچھ چیزیں درست کرتے ہیں تو اس کی تعریف بھی ہونی چاہیے۔‘
تاہم گیٹی امیجز فی الحال ان کی کمپنی کے خلاف قانونی کارروائی میں مصروف ہے۔ فوٹو ایجنسی نے دعویٰ کیا ہے کہ عماد مستک کی کمپنی کی جانب سے ان کی فروخت کردہ تصاویر کے حقوق کی خلاف ورزی کی گئی ہے۔