جب پراسرار جنگل میں بھوتوں نے ہماری راہ کھوٹی کی

کوہِ نمک کے پہاڑوں کی سیر کے دوران ہم اندھیرے میں اپنی راہ اس بری طرح کھوٹی کر بیٹھے کہ منزل تک پہنچنا محال ہو گیا۔

(پکسا بے)

ہمارے ساتھ یہ واردات سالٹ رینج میں بُھوت بنگلہ نما تاریخی قلعہ سمرقند کے قریب عیدِ قرباں کے دوسرے دن ہوئی۔

اللہ کے کرم سے ہم خود بھی فقیر لوگ ہیں اور پیروں، فقیروں کی درگاہوں پر حاضریاں بھی دیتے رہتے ہیں۔ اس نیک مقصد کی خاطر عید کا موقع ہمارے لیے موزوں ہوتا ہے، جب ہمارے ملازمت پیشہ اوربیرون ملک مقیم کزن بھی ہماری عید کی خوشیاں دوبالا کرنے گاؤں پہنچ جاتے ہیں۔

تب یہ گناہ گار حسب توفیق اپنا بکرا یا دیسی مرغے ساتھ لیے پہلے سے مانی گئی کوئی مَنت دینے آبادی سے دور، بہت دور جنگل میں کسی دربار پر حاضر ہو جاتے ہیں۔ کئی حاسد ہمارے اس نیک عمل کو مَنت کی بجائے پکنک قراردیتے ہیں مگر فقیرلوگ دنیاداروں کی کب پرواہ کرتے ہیں بھلا؟

عید کے دوسرے دن علی الصبح درویشوں کا 17 رکنی قافلہ قربانی کا گوشت اور دیگر سامان اٹھائے ایک مشکل ترین منزل کے لیے روانہ ہوا۔ اس دفعہ تحصیل کلرکہارکے خوبصورت مگر دشوار گزار پہاڑوں کے دامن میں آسودہ باوا گمٹی والی سرکار کے دربار پر گوشت بُھوننے کی منت مانی گئی تھی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سالٹ رینج کے علاقے میں یہ قدیم دربار 13ویں صدی میں چنگیزخان سے لڑنے والے سلطان جلال الدین محمد خوارزم شاہ منبکرنی کے تعمیرکردہ تاریخی قلعہ سمرقند کے سائے میں واقع ہے اور شاید اتنا ہی پرانا ہے۔ آج یہ قلعہ اور دربار نہایت شکستہ حالت میں سہی مگران کی ٹوٹی پھوٹی دیواریں آٹھ سو سال پرانی تاریخ کی خونریز داستانیں یوں سناتی ہیں کہ وقت تھم سا جاتا ہے۔

وہاں گاڑی یا موٹر سائیکل تو درکنار، خچر کا جانا بھی محال ہے۔ دشوار گزار گھاٹیوں اور ندی نالوں کے اس طویل سفرمیں منزل تک پہنچنے کا واحد ذریعہ انسان کے پاؤں ہیں۔ درگاہ کے ایک درخت سے لٹکتی زنجیرکے ساتھ بہت سی گھنٹیاں بندھی ہوئی ہیں، جسے کھینچے سے یہ بج اٹھتی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ جو بھی یہ گھنٹیاں بجا کر کسی ایک خواہش کا اظہار کرے تو وہ پوری ہوتی ہے۔ جو مضبوط اعصاب یہاں پہنچنے میں کامیاب ہو جائے وہ گھنٹیاں بجا کر ایک ہی خواہش کا اظہار کرتا ہے کہ وہ خیریت سے گھر واپس پہنچ جائے۔

مسافروں کا قافلہ جنگل میں قدم رکھنے سے قبل آخری گاؤں میرا آئمہ میں گاڑی سے اترا تو ایک جہاندیدہ بزرگ نے رہنمائی کی۔ انہوں نے ہمیں منزل مقصود پر پہنچنے کا طریقہ بتاتے ہوئے کہا کہ یہاں کوئی باقاعدہ رستہ تو نہیں البتہ ہم نے جا بجا درختوں کے ساتھ سفید جھنڈیاں باندھ رکھی ہیں جو دربار تک مسافروں کی رہنمائی کرتی ہیں۔

انہوں نے ہمیں نصیحت کی کہ کسی بھی صورت ہم جھنڈیوں والا رستہ نہ چھوڑیں ورنہ خوار ہوں گے۔ خوار تو خیر ہونا ہی تھا کہ ہم نے ایک مشکل اور حساس سفر کا آغاز غیر سنجیدگی سے کیا اور جلد ہی اصل رستے سے بھٹک گئے۔ ہنسی مذاق میں کوہ پیمائی اور دشوار گزار گھاٹیوں اور ندیوں کو عبور کرتے جانے کب جھنڈیاں غائب ہوئیں اور ہم پراسرارجنگل میں بھٹکتے غلط سمت میں دور تک میں نکل گئے۔

اس دوران وہاں بکثرت پائے جانے والے جنوں اور بھوتوں سے ہماری ہیلو ہائے ہوتی رہی مگر ان میں سے کسی نے بھی ہمیں صحیح راہ نہ دکھائی بلکہ سچی بات تو یہ ہے کہ ہماری منزل کھوٹی کرنے میں اُن جن بھوتوں کا کردار کلیدی ہے، جنہوں نے ہر دفعہ الٹی سمت میں ہماری رہنمائی کی۔ تاہم آفریں ہے گورے کی سائنس پر۔ خدا معلوم سگنل کہاں سے آئے، کرنل شاہد نے ہینڈ سیٹ پر گوگل ارتھ سے نقشہ تلاش کیا اور ایک طویل اور جان توڑ مسافت کے بعد دوپہر کے وقت ہم دربار شریف پر پہنچنے میں کامیاب ہو گئے۔

قدیمی دربار پر مسافروں نے آگ جلا کر گوشت پکایا اور لنچ کے بعد بوڑھے برگد کی گھنی چھاؤں میں تا دیر آرام کیا۔ ڈھیر سارے شغل میلے کے بعد واپسی کا سفر درپیش ہوا تو خیال آیا کہ گھر کا سفر ناممکن حد تک مشکل ہو چکا ہے۔ پس غریب الدیار مسافروں نے دربار کی گھنٹیاں بجا کر اپنی واحد خواہش کا اظہار کیا کہ ہم واپس گھر جانا چاہتے ہیں۔

دن کی ہلکی بارش کے بعد جھنڈیوں والا رستہ ناقابل استعمال ہو چکا تھا، سو ہم نے مخالف سمت کا پہاڑ عبور کرکے کلر کہار کا قصد کیا۔ اس مشکل کوہ پیمائی کے بعد خاموش، پُر اسرار رات تھی اورچاند کی سحر انگیز چاندنی میں تاحد نظر سرسبز میدان کا طویل پیدل سفر تھا۔ اول شب کا یہ خوبصورت سفر بھی سراب ثابت ہوا اور ہم ایک مرتبہ پھر رستے سے بھٹک گئے۔

جب تادیر سڑک نظر نہ آئی اور ہم تھکاوٹ سے چور ہو گئے تو بیزاری غالب آ گئی۔ المختصر، بڑی جان جوکھوں کی مسافت کے بعد گاڑی تک رسائی ہوئی اور رات گئے تھکے ہارے مسافر طویل چکر کاٹ کر گھر پہنچے۔

ایسا حادثہ ہمارے ساتھ پہلی دفعہ نہیں ہوا۔ 71 برس قبل بھی ہم رستہ بھول گئے تھے، جب ہم نے منزل تک پہنچنے کے لیے قائدِاعظم کا دکھایا سفید جھنڈیوں والا رستہ ترک کر دیا تھا۔ تب سے آج تک ہم جنگلوں اور ویرانوں میں بھٹک رہے ہیں۔ ہم نے جناح کے بعد اس حساس سفر کوغیرسنجیدہ لیا اور ٹھٹے مذاق میں قیام پاکستان کا مقصد اندھی، گونگی اور بہری راہوں میں کھو گیا۔ ہم جمہوری فلاحی مملکت کی بجائے کوئی مافوق الفطرت قسم کی ریاست بنانے میں جت گئے، حتیٰ کہ ایک پراسرار جنگل وجود میں آ گیا، جہاں کسی آئین یا قانون کی کوئی وقعت نہیں۔ سچی بات تو یہ ہے کہ یہاں بھی ہماری منزل کھوٹی کرنے میں جنوں اور بھوتوں کا بڑا دخل ہے جو زبردستی ہمارے ساتھ چمٹ گئے اور آج تک ہمارا پیچھا نہیں چھوڑا۔

ان میں سے کئی تو وہ ہیں جو سرے سے ہی اس منزل کے مخالف تھے اور ہر دفعہ غلط سمت میں ہماری رہنمائی کرتے رہے ہیں۔ کبھی جمہوری اور کبھی غیر جمہوری طریقے سے ہم نے کئی دفعہ نئے سرے سے سفر کا آغاز کیا۔ ہر مرتبہ ایڈونچر سے لطف اٹھاتے ہم نے جانا کہ اب منزل قریب ہے مگر جلد ہی احساس ہو گیا کہ یہ سفر بھی الٹی سمت کا ہے۔ کئی امجد اسلام امجد دہائی دیتے رہے ؎ اتنا بے سمت نہ چل، لوٹ کے گھر جانا ہے ۔ ۔ ۔ مگر رہبروں کے بھیس میں رہزن ہمیں سفید جھنڈیوں کے رستے سے دور کرتے رہے اور ہم بھٹکتے رہے، اور آج تک بھٹک رہے ہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ