پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی نو مئی کو گرفتاری کے بعد ہونے والے پرتشدد واقعات کے دوران خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں ریڈیو پاکستان کی عمارت کو بھی نشانہ بنایا گیا اور عمارت میں موجود پشتو اور اردو موسیقی کے ساتھ ساتھ نایاب ادبی اثاثوں کو بھی نذر آتش کردیا گیا۔
ریڈیو پاکستان پشاور کے پروگرام مینیجر حبیب النبی کے مطابق عمارت میں لگنے والی آگ کی وجہ سے ماضی کی مشہور شخصیات کے اپنے ہاتھوں سے لکھے ہوئے اردو اور پشتو کے نادر ڈراموں کے سکرپٹس بھی جل کر راکھ ہوگئے۔
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو سانحے کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا: ’شرپسندوں نے اس عمارت کو دو بار نشانہ بنایا۔ پہلا حملہ نو مئی کو ہوا، جس میں عمارت کے داخلی گیٹ کے پاس چاغی کی یادگار کو آگ لگا کر مکمل خاکستر کردیا گیا۔ دوسرا حملہ 10 مئی کو کیا گیا اور شرپسندوں نے اندر داخل ہوتے ہوئے عمارت کے احاطے میں کھڑی سرکاری و نجی گاڑیوں کو آگ لگانے کے بعد چار منزلہ عمارت کو آگ لگا دی۔‘
عمارت میں موجود ریڈیو پاکستان کے عملے کے مطابق دو ہزار کے قریب تاریخی کتابیں اور دیگر ادبی نوادرات جن میں صوفی شاعر رحمٰن بابا اور خوشحال خان خٹک کی کتابوں کے نسخے بھی شامل ہیں، نذر آتش کردیے گئے۔
ریڈیو پاکستان کے ڈراما آرٹسٹ اسماعیل مومند نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اس واقعے میں ریڈیو پاکستان سے جڑی ادبی تاریخ کو بے دردی سے مٹا دیا گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا: ’اس عمارت میں داخل ہوتے ہوئے شدید تکلیف ہوتی ہے کہ حمزہ خان شینواری، ڈاکٹر اعظم اعظم، ساحر آفریدی، زیتون بانو، سید رسول رسا، ڈاکٹر ہمایوں ہما، ارباب عبد الوکیل اور دیگر نامور شعرا اور ادیبوں کے ہاتھوں سے لکھے گئے نادر سکرپٹ جل کر راکھ ہوگئے ہیں۔‘
انڈپینڈنٹ اردو نے جب عمارت کے اندر حالات کا جائزہ لیا تو دھوئیں سے اندرونی و بیرونی حصہ سیاہ پڑ چکا تھا۔ جگہ جگہ جلی ہوئی کتابوں کے ڈھیر، کاغذوں کی راکھ اور جلا ہوا فرنیچر باقی رہ گیا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
عمارت کی چوتھی منزل پر جہاں فائلوں اور نایاب کاغذوں کے پلندے جل گئے تھے، وہاں اب بھی راکھ میں تپش موجود تھی۔
اس آگ میں 13 اور 14 اگست 1947 کو پاکستان کی آزادی کے وقت ریڈیو پاکستان کے کردار اور اس رات کے مشہور براڈکاسٹرز عبداللہ جان مغموم، آفتاب احمد، قاری محمد، اور بعد کے دور کے مشہور شعرا اور فنکار جیسے احمد خان، خیال محمد، استاد فضل ربی، رفیق شینواری، معشوق سلطان، اور دیگر ادیب عبداللہ جان مغموم، قلندر مہمند، سید ممتاز علی شاہ، اجمل خٹک، خاطر غزنوی اور حمزہ خان شینواری ودیگر نامور شخصیات کی تصاویر کو بھی ہمیشہ کے لیے جلا کر ختم کردیا گیا ہے۔
عمارت میں موجود بعض ملازمین نے نام نہ بتانے کی شرط پر بتایا کہ وہ شدید مایوسی میں مبتلا ہیں کیونکہ خراب حالات کے باوجود نہ تو انہیں بروقت سکیورٹی دی گئی اور نہ آگ لگنے کے بعد فائربریگیڈ کو بھیجا گیا۔
ان ملازمین کا کہنا ہے کہ اگر بروقت فائر بریگیڈ کو بھیجا جاتا تو اس قدر نقصان نہ ہوتا۔
تاہم دوسری جانب، پروگرام مینیجر حبیب النبی نے بتایا کہ وہ فوج کے ترجمان ادارے آئی ایس پی آر کے مشکور ہیں جنہوں نے 24 گھنٹے کے اندر ٹرانسمیٹر کو بحال کرکے ٹرانسمیشن جاری رکھنے میں اہم کردار ادا کیا۔
انہوں نے مزید بتایا کہ تمام سٹوڈیوز مکمل طور پر محفوظ رہے ہیں، کیونکہ وہ داخلی عمارت سے ذرا فاصلے پر تعمیر کیے گئے ہیں۔
اس آگ میں اس عمارت میں موجود سرکاری نیوز ایجنسی اے پی پی کے دفاتر بھی نہ بچ سکے اور بری طرح متاثر ہوئے۔ عملے کی گاڑیوں کو بھی نہیں بخشا گیا اور توڑ پھوڑ کی گئی۔