قہوہ: عرب مشروب جسے دیکھ کر ’مغرب میں کافی رواج بنی‘

یمن میں صوفیا کی مجالس سے رواج پانے والا یہ مشروب مکہ پہنچا، وہاں سے مصر میں عام ہوا اور اس کے بعد ترکی، ہندوستان اور دیگر خطوں میں پیا جانے لگا۔

قہوہ عرب دنیا میں محض ایک مشروب نہیں بلکہ  ثقافتی روایت ہے (انواتو ایلیمینٹس)

آپ سعودی عرب میں کسی تقریب میں شرکت کریں، کسی کے گھر جائیں، کسی مذہبی تہوار کا موقع ہو یا کسی مقامی میلے میں حاضر ہوں، شاہی محل سے لے کر گلی کے کونے پر لگی نوجوانوں کی محفل تک، ہر جگہ مہمان نوازی کے لیے آپ کو ہلکے بھورے رنگ کا ایک گرم مشروب نظر آئے گا۔

اسے چھوٹی پیالیوں میں پیش کیا جاتا ہے اور سب اسے شوق سے پیتے ہیں۔ یہ مشروب ’عربی قہوہ‘ ہے اور جن چھوٹی پیالیوں میں اسے پیش کرتے ہیں ہے انہیں ’فنجان‘ کہا جاتا ہے۔

قہوے کا نام سنتے ہیں ہمارے ذہن میں بغیر دودھ کی چائے کا تصور آتا ہے لیکن عرب دنیا میں قہوہ کافی کو کہتے ہیں۔

الفاظ کے اصول اور اشتقاق پر مشتمل ’ایٹیمالوجی ڈکشنری‘ کے مطابق انگریزی لفظ ’کافی‘ قہوہ سے ہی ماخوذ ہے کیونکہ قہوہ پینے کی روایت عرب دنیا میں شروع ہوئی اور بعد ازاں ترکی اور دیگر اسلامی ممالک کے راستے یورپ پہنچی اور وہاں مشہور ہو گئی۔

تاہم تلفظ میں مماثلت اور مشترکہ تاریخ سے اس غلط فہمی کا شکار نہیں ہونا چاہیے کہ مروجہ کافی اورعربی قہوہ ایک ہی مشروب ہیں، کیونکہ عربی قہوہ کافی کے چھلکے سے تیار کیا جاتا ہے اور اس کا رنگ ہلکا ہوتا ہے، جبکہ روایتی کافی بیجوں کو پیس کر بنائی جاتی ہے اور اس کا رنگ عربی قہوے کے مقابلے میں زیادہ گہرا ہوتا ہے۔

قہوے کی ابتدا کب اور کیسے ہوئی؟

قہوے کی ابتدا کے متعلق دلچسپ افسانہ بیان کیا جاتا ہے جس کے مطابق حبشہ کے صحرا میں ’خالیدی‘ نامی ایک چرواہے نے دیکھا کہ اس کے ریوڑ میں ایک بکری اچانک انتہائی چاق و چوبند اور غیر معمولی طور پرفعال ہوگئی ہے۔

خالیدی نے کھوج لگانے کی کوشش کی کہ آخر بکری کے رویے میں اس غیر معمولی تبدیلی اور چستی کی کیا وجہ ہے تو اس کو معلوم ہوا کہ اس بکری نے ایک خاص قسم کا پودا کھا لیا ہے جو خالیدی نے پہلے نہیں دیکھا تھا۔

اسے تجسس ہوا کہ یہ پودا کس حد تک موثر ہے تو اس نے خود کھا کر تجربہ کیا۔ اسے بھی طبیعت میں نشاط محسوس ہوا۔ 

بعد ازاں اس نے علاقے کے ایک بااثر مذہبی شخص کو یہ پودا کھلایا اور یوں قہوہ نوشی کی بنیاد پڑ گئی۔

افسانے سے قطع نظر قہوے کی شروعات کے متعلق ایک مستند روایت ہے جسے مشہور مصنف مرتضیٰ الزبیدی نے بھی نقل کیا ہے۔

روایت کے مطابق نویں صدی ہجری میں یمن کے صوفیا کی مجالس میں قہوہ پینے کا رواج سب سے پہلے شروع ہوا۔

اس ضمن میں ایک صوفی شیخ علی بن عمر الشاذلی کا ذکر کیا جاتا ہے جنہوں نے قہوہ دریافت کیا اور جن کے نام پر آج بھی عرب قبائل میں ’شاذلی قہوہ‘ مشہور ہے۔

انہوں نے اس مشروب کو سب سے پہلے متعارف کرایا اور اپنی مجلس میں مریدین کو پیش کیا۔

بعد ازاں قہوہ وہاں کی دیگر مجالس کا حصہ بننے لگا اور کچھ عرصے میں قہوہ یمن میں مشہور ہو گیا۔

یہ عرب ممالک میں نہیں بلکہ پوری دنیا میں قہوے کی ابتدا تھی۔

جس وقت یمن اور حبشہ کے صحراؤں میں یہ مشروب عام ہو رہا تھا، اس وقت مغربی دنیا کافی اور اس کی تمام انواع و اقسام سے مکمل طور پر ناآشنا تھی۔

صوفیا، قہوہ اور مذہبی تنازع

یمن کے صوفیا کی مجالس میں قہوے کا استعمال ذہن اور بدن کو جگانے اور ذکر و عبادت پر تقویت حاصل کرنے کے غرض سے ہوتا ہے۔

رفتہ رفتہ ان مجالس میں قہوے کو مرکزی حیثیت حاصل ہو گئی اور بعض مجالس میں ابتدائی ذکر کے بعد قہوے کا دور باقاعدہ مجلسی رسومات کا لازمی جزو اور مقصد بن گیا۔

یہ رواج اور طور طریقے جب تک یمن میں تھے اس وقت تک ان پر کوئی قابل ذکر اختلاف نہیں ہوا۔

تاہم دسویں صدی ہجری میں قہوہ پینے پلانے کا رواج جب مکہ پہنچا تو وہاں اس پر مذہبی تنازع کھڑا ہوگیا۔

ابتدا کچھ اس طرح ہوئی کہ والی مکہ نے دیکھا کہ بازار میں مجالس لگی ہوئی ہیں جن میں قہوے کے دور چل رہے ہیں اور غفلت کا ماحول عام ہے۔

انہوں نے قہوہ پینے والوں کو گرفتار کر لیا اور سرکاری طور پر قہوے کے متعلق مذہبی مباحثہ شروع ہو گیا جو کئی سال تک جاری رہا۔

اس دوران مذہبی بنیادوں پر قہوے پر پابندی عائد کی گئی لیکن وقت کے ساتھ ساتھ یہ مشروب عوام میں اتنا مقبول ہوگیا کہ تمام پابندیاں بے اثر ہو گئیں اور کچھ عرصے بعد یہ حقیقت بھی ثابت ہو گئی کہ قہوہ نشہ آور اور عقل کو شل کردینے والا مشروب نہیں۔

مذہبی تنازعے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ قہوہ پہلے شراب کی ایک مشہور قسم کا نام تھا۔

بعد ازاں جب یہ مشروب دریافت ہوا تو اس کا نام بھی قہوہ رکھ دیا گیا، لیکن نام کے منفی تصورکی وجہ سے قہوہ بھی اعتراض اور ممانعت کا شکار ہوگیا۔

یمن میں صوفیا کی مجالس سے رواج پانے والا مشروب مکہ پہنچا، وہاں سے مصر میں عام ہوا اور اس کے بعد ترکی، ہندوستان اور دیگر خطوں میں پیا جانے لگا۔

دسویں اور گیارہویں صدی ہجری وہ سال تھے جب مغربی دنیا نئے تجارتی راستے دریافت کر رہی تھی۔

پرتگال اور ہالینڈ کی بحری افواج مختلف اسلامی ممالک کے قرب و جوار میں موجود تھیں۔

ان استعماری افواج کے ذریعے قہوہ پہلی مرتبہ یورپ اور ان ممالک میں پہنچا جہاں پرتگال اور ہالینڈ کا قبضہ تھا۔

برازیل جو آج دنیا میں کافی برآمد کرنے والے ممالک میں سرفہرست ہے وہاں اس زمانے میں پرتگال کا قبضہ تھا۔

برازیل میں کافی کی کاشت کاری غالباً اسی زمانے میں شروع ہوئی اور اجرتی عاملوں اور غلاموں کی شبانہ روز محنت سے برازیل پوری دنیا میں کافی کی ترسیل کے لیے مشہور ہو گیا۔

قہوے کے ’آداب‘

قہوہ عرب دنیا میں محض ایک مشروب نہیں ایک ثقافتی روایت ہے جسے مخصوص طریقے سے تیار کیا جاتا ہے اور اس کو فنجان میں نکالنے سے لے کر پینے اور خالی فنجان واپس کرنے تک کے آداب ہیں۔

اس ضمن میں شامی ادیب علی الطنطاوی امیر تبوک سے اپنی ملاقات کا احوال بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’ہم امیر تبوک کی خدمت میں حاضر ہوئے تو کچھ دیر گفتگو کے بعد انہوں نے اپنے قریب کھڑے ایک خادم کے کان میں کچھ کہا۔

’اس خادم نے کچھ دور کھڑے دوسرے خادم کو کچھ زور سے قہوہ لانے کو کہا۔ 

’اس طرح ہر خادم اپنی جگہ سے حرکت کیے بغیر اگلے خادم کو قہوہ کی صدا لگاتا اور دیکھتے ہی دیکھتے پورا محل قہوہ قہوہ کی صداؤں سے گونجنے لگا۔‘

علی الطنطاوی کچھ آگے قہوے کے آداب بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ سعودی عرب میں قہوہ پیش کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ میزبان بذات خود قہوہ دان کو بائیں ہاتھ میں پکڑتا ہے اور فنجان کو دائیں ہاتھ میں تاکہ مہمان کو دائیں ہاتھ سے پیش کرکے ادب کا تقاضا پورا کیا جائے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

فنجان کو پورا نہیں بلکہ قریباً ایک گھونٹ کے برابر ہی بھرا جاتا ہے۔ میزبان بالترتیب مجلس میں دائیں ہاتھ سے تمام مہمانوں کو قہوہ پیش کرتا ہے۔

اگر کسی مہمان کو پیش نہ کیا جائے تو اسے مہمان کی تذلیل تصور کیا جاتا ہے، اسی طرح اگر کوئی مہمان قہوہ پینے سے انکار کردے تو اس کا فنجان اگلے مہمان کو پیش نہیں کیا جاتا بلکہ ہر مہمان کو علیحدہ فنجان پیش کیا جاتا ہے۔

فنجان خالی ہوجانے کے بعد میزبان اسے دوبارہ اور سہ بارہ بھرتا رہتا ہے جب تک مہمان فنجان کو ڈگڈگی کی طرح نہ ہلائے،اس اشارہ کا مطلب ہوتا ہے کہ مزید قہوے کی ضرورت نہیں۔

جب شاہ سلمان نے امریکی صدر کو قہوہ پینا سکھایا

2016 میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بطور صدر اپنے پہلے غیر ملکی دورے پر سعودی عرب آئے تو سرکاری طور پر ان کا بھرپور استقبال کیا گیا۔

اس دورے میں امریکی صدر کے ہمراہ ان کی اہلیہ، بیٹی اور داماد بھی تھے جنہوں نے سرکاری تقریبات میں شرکت کے علاوہ کچھ وقت نجی مصروفیات میں بھی گزارا، جس دوران ان کو عربی قہوہ بھی پیش کیا گیا۔

ایک سے زائد مرتبہ دیکھا گیا کہ سعودی فرماںروا شاہ سلمان امریکی صدر کو قہوے کی مخصوص روایات کے متعلق بتا رہے ہیں۔

ایک موقعے پر دیکھا جا سکتا ہے کہ شاہ سلمان ڈونلڈ ٹرمپ کو فنجان ہلانے کا طریقہ بتا رہے ہیں جبکہ دوسری جگہ امریکی صدر اور ان کی اہلیہ کو سیدھے ہاتھ سے قہوہ پینے کی تلقین کر رہے ہیں۔

یہ مناظر کئی دنوں تک سوشل میڈیا پر موضوع بحث بنے رہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی تاریخ