انناس کب اور کیسے مہمان نوازی کی علامت بنا؟

انناس براعظم جنوبی امریکہ کے ایک علاقے کی ’گوارانی‘ نامی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب ہے ’بہترین پھل‘ اور یہاں اس کو انناس یا نناس کہا جاتا ہے۔

17 جون 2021 کی اس تصویر میں انڈیا کے شہر بنگلور میں ایک پھل فروش انناس کے پھل فروخت کر رہا ہے(اے ایف پی)

پاکستان کی وفاقی حکومت نے سال 2002 سے سال 2023 تک توشہ خانہ میں جمع کروائے گئے تحفوں کا ریکارڈ گذشتہ روز پبلک کر دیا جس کے مطابق پاکستان مسلم لیگ ن کی سینیئر نائب صدر مریم نواز نے توشہ خانہ سےانناس کا ایک ڈبہ حاصل کیا۔

ریکارڈ میں پاکستانی کی سیاسی شخصیات اور اعلی عہدیداروں کو ملنے والے دیگر تحفوں کی تفصیل بھی موجود ہے جن مہنگی گھڑیاں، گاڑیاں اور زیورات شامل ہیں۔

توشہ خانہ کے 2018 کے قوانین کے مطابق 30 ہزار روپے مالیت سے کم کا تحفہ مفت میں لیا جا سکتا ہے جبکہ اس سے زیادہ مالیت کی اشیا کی پہلے ایف بی آر کی جانب سے قیمت کا تعین ہوتا ہے اور 30 ہزار سے زیادہ کے تحفے کی قیمت کا 50 فیصد ادا کرنے کے بعد وہ تحفہ حکومتی عہدیدار اپنے پاس رکھ سکتا ہے۔

نوشہ خانہ ریکارڈ سامنے آنے کے بعد سوشل میڈیا پر ’پائن ایپل‘ کا ٹرینڈ بھی چل رہا ہے اور بعض لوگ پائن ایپل کے تحفے کا مذاق بھی اڑا رہے ہیں کہ پائن ایپل کو بطور تحفہ دیا گیا ہے اور اسے مریم نواز نے مفت میں لیا۔

 لیکن شاید یہ بات ہم میں سے بہت سے لوگ نہیں جانتے کہ پائن ایپل کسی زمانے میں شاہی محلات کی زینت بنتا تھا اور عام آدمی کی پہنچ سے باہر تھا۔

انناس کا ارتقا

انناس یورپ کیسے پہنچا اور یہ کیسے شاہی خاندان کے محلوں کی زینت بنا، اس پر بات کرنے سے پہلے انناس کے ارتقا پر بات کرتے ہیں کہ یہ پھل کب اور کیسے متعارف ہوا؟

پائن ایپل کو پاکستان سمیت مختلف ممالک میں ’انناس‘ بھی کہا جاتا ہے۔

انناس براعظم جنوبی امریکہ کے ایک علاقے کی ’گوارانی‘ نامی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب ہے ’بہترین پھل‘ اور یہاں اس کو انناس یا نناس کہا جاتا ہے۔

انڈیا کی ریاست کیرالا کی ایگری کلچر یونیورسٹی کے پائن ایپل رسرچ سینٹر سے ’پائن ایپل کی ارتقا‘ کے نام سے شائع ایک مقالے کے مطابق پائن ایپل کی ساخت اور اس کو جن ناموں سے پکارا جاتا ہے، سے لگتا ہے کہ یہ پھل تقریباً تین ہزار سال پرانا ہے۔

اسی مقالے کے مطابق پائن ایپل ٹراپیکل پھلوں(گرمیوں کے پھلوں) میں دنیا میں کیلے اور سٹرس کے بعد سب سے زیادہ پیدا ہونے والا پھل ہے اور اس کی پیداوار 1961 میں 38 لاکھ ٹن سے بڑھ کر2013 میں تقریباً تین کروڑ ٹن تک پہنچ گئی۔

پائن ایپل یورپ کیسے پہنچا؟

دنیا میں سب سے زیادہ پائن ایپل پیدا کرنے والے ممالک میں کوسٹا ریکا، برازیل، فلپائن، تھائی لینڈ، انڈونیشیا اور انڈیا شامل ہیں اور اس پھل کو جدید تاریخ میں اطالوی تاریخ دان کرسٹوفر کولمبس نے 1493 میں دریافت کیا۔

کیرالہ یونیورسٹی کی تحقیق کے مطابق کولمبس گواڈیلوپ نامی جزیرے پر گئے جہاں ان کی اور کولمبس کے ساتھیوں کی مہمان نوازی کے لیے پائن ایپل کا پھل پیش کیا گیا۔

تحقیق کے مطابق کولمبس کو اس کا ذائقہ بہت اچھا لگا۔

اس کے بعد کولمبس اس پھل کو اپنے ساتھ یورپ لے آئے لیکن اس کو لانے میں بہت دن لگتے تھے یہی وجہ تھی کہ یہ راستے میں اکثر خراب ہو جاتا تھا۔ تب تک یہ یورپ میں اتنا عام نہیں تھا اور زیادہ تر شاہی خاندانوں کے دستر خوان کی زینت ہی بنتا رہا۔

مقالے کے مطابق امریکہ کے بعد یہ سنگاپور، سپین، افریقہ سمیت 1548 تک انڈیا بھی پہنچ گیا تھا اور 16 ویں صدی تک یہ چین، فلپائن او دیگر قریبی علاقوں تک بھی پہنچ چکا تھا۔

جس کے بعد فلپائن میں اس وقت پائن ایپل سے کپڑے بننا بھی شروع ہو گئے تھے جن کو ’پائنا کلاتھ‘ کا نام دیا گیا۔

دوسری جانب پائن ایپل کی مقبولیت شاہی خاندانوں میں بھی بڑھتی رہی اور 18ویں صدر تک یہ آسٹریلیا سمیت یورپی ممالک جرمنی اور برطانیہ تک جا پہنچا۔

پائن ایپل مہمان نوازی کی علامت کب بنا؟

پائن ایپل کے مہمان نوازی کی علامت بننے کا قصہ بھی بہت دلچسپ ہے، ہوا کچھ یوں کہ سال 1675 میں برطانوی شاہی خاندان کے سربراہ کنگ چارلس دوم ایک سرکاری پورٹریٹ بنوانے کے لیے جب پوز بنا کر کھڑے ہوئے تو اس دوران انہیں پائن ایپل کا تحفہ وصول کرتے دکھایا گیا۔

کیرالہ یونیورسٹی کے مقابلے کے مطابق اس وقت سے ہی پائن ایپل کو بطور تحفہ دینے کا رواج عام ہوا۔

1712 میں برطانیہ میں پائن ایپل کو اگانے کی کوشش ناکام رہی لیکن 1719 میں نیدرلینڈز سے لائے گئے انناس کے پودے کام دکھا گئے اور برطانیہ میں پہلی بار پائن ایپل اگانے کا رواج عام ہوا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس کے علاوہ پائن ایپل کی تصاویر کو گھروں میں لگانے کا رواج بھی عام ہو گیا اور بعض گھروں کے مرکزی دروازے پر اس کو مہمان نواز کے طور پر لگانے کی روایت شروع ہوئی۔

مقالے کے مطابق ملاحوں کے گھروں میں پائن ایپل کے مجسمے لگائے جانے لگے تاکہ گھر واپسی پر انہیں خوش آمدید کہا جا سکے۔

سدرن کچن نامی ویب سائٹ پر شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق یہ پھل تقریباً تین ہزار سال پرانا ہے اور زمانہ قدیم میں ٹوپینامبو نامی قبیلے کے لوگ اس پھل کی عبادت بھی کرتے تھے۔ اس کے علاوہ وہ کھانے کے ساتھ ساتھ اس پھل سے شراب، ادویات اور اس کے پتوں اور جلد کا استعمال کر کے زہریلے تیروں کی نوکیں بھی بنائی جاتی تھیں۔

تحقیق کے مطابق یہ لوگ انناس کے پھل کو خوش حالی اور زرخیزی کی علامت بھی سمجھتے تھے۔

جب پائن ایپل کے ایک پھل کی قیمت آٹھ ہزار ڈالر تھی

اس تحقیق میں مزید لکھا گیا ہے کہ کولمبس نے جب پائن ایپل کو دریافت کیا تو اس زمانے میں انہوں نے واپسی پر اس کو سپین کے بادشاہ کو پیش کیا، جس کے بعد یورپ کے لوگوں نے پہلی مرتبہ اس پھل کو دیکھا۔

تحقیق کے مطابق اس وقت جب اس پھل کو کیریبین جرائر سے یورپ منتقل کیا جاتا تو یہ زیادہ تر خواب ہو جاتا تھا، اسی وجہ سے اس کی قیمت بھی کافی زیادہ تھی اور زیادہ تر ریاستوں کے سربراہ ہی اس کو خریدنے کی سکت رکھتے تھے۔

مقالے کے مطابق اس وقت ایک انناس کی قیمت آٹھ ہزار ڈالر تھی۔ یہ موجودہ دور میں تقریباً 20 لاکھ پاکستانی روپے بنتے ہیں۔

جو یقینی طور پر اتنا مہنگا ہے کہ اسے صرف شاہی خاندانوں کے افراد اور امیر ترین لوگ ہی خرید سکتے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی تاریخ