ساتھیوں کو سمجھائیں سخت تقاریر نہ کریں: چیف جسٹس

پنجاب میں انتخابات کے فیصلے کے خلاف الیکشن کمیشن کی نظرثانی درخواست پر سماعت کے دوران چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ ’آرٹیکل 184/3 کا استعمال بہت بڑھ گیا ہے، احساس ہوا ہے کہ اس سے غلطیاں بھی ہو سکتی ہیں۔‘

سپریم کورٹ آف پاکستان کی عمارت کا ایک منظر (تصویر: انڈپینڈنٹ اردو)

صوبہ پنجاب میں انتخابات کے فیصلے کے خلاف الیکشن کمیشن کی نظرثانی درخواست پر بدھ کو سماعت کے دوران سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ریمارکس دیے کہ ساتھیوں کو سمجھائیں کہ باہر کھڑے ہو کر یا ایوان میں اتنی سخت تقریریں نہ کریں۔

بدھ کو چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس منیب اختر اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل تین رکنی بینچ نے الیکشن کمیشن کی نظر ثانی درخواست پر سماعت کی۔

سماعت کے آغاز پر اٹارنی جنرل نے روسٹرم پر آ کر کہا کہ عدالت نے گذشتہ روز کہا کہ ہم نے نئے نکات نظر ثانی میں اٹھائے ہیں، وفاقی حکومت کے جواب میں پہلے بھی نکات اٹھائے تھے۔

چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ’آپ کو وضاحت کی ضرورت نہیں ہے، آپ گھبرائیں نہیں۔ ماضی کی چیزوں کا آپ پر استعمال نہیں کریں گے۔ ہم اس عدالت میں آپ کی یا کسی اور کی نہیں بلکہ اللہ کی رضا کے لیے بیٹھے ہیں۔ ہم کھلے دل کے ساتھ یہاں بیٹھے ہیں، آپ بھی اپنے ساتھیوں کو سمجھائیں کہ باہر کھڑے ہو کر اور ایوان کے اندر اتنی سخت تقریر نہ کریں۔ ہم سب کچھ اللہ کی رضا اور عوام کی خاطر برداشت کر رہے ہیں۔‘

اٹارنی جنرل نے کہا کہ ’عدالت نے کل ریمارکس دیے تھے کہ وفاقی حکومت پہلے 4/3 کے چکر میں پڑی رہی۔ ایک صوبے میں انتخابات ہوں تو قومی اسمبلی کا الیکشن متاثر ہونے کا نکتہ اٹھایا گیا تھا، اپنے جواب میں 4/3 کا فیصلہ ہونے کا ذکر بھی کیا تھا۔‘

جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’عدالت آپ کی سماعت کے لیے بیٹھی ہے، کوئی معقول نکتہ اٹھایا گیا تو جائزہ لے کر فیصلہ بھی کریں گے۔ عدالت میں نکتہ اٹھایا گیا لیکن اس پر بحث نہیں کی گئی۔‘

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے مزید کہا کہ ’حکومت کی نہیں اللہ کی رضا کے لیے یہاں بیٹھے ہیں۔ بہت سی قربانیاں دے کر یہاں بیٹھے ہیں۔ آپ صفائیاں نہ دیں، عدالت صاف دل کے ساتھ بیٹھی ہے۔ عدالت نے کل آبزرویشن دی جس کو غلط انداز میں پیش کیا گیا، ہماری ہر چیز درست رپورٹ نہیں ہوتی۔‘

’میں تو مرسیڈیز استعمال ہی نہیں کرتا‘

چیف جسٹس نے پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا: ’عمران خان کو عدالت نے مرسیڈیز دی تھی، ہماری پی آر او نے وضاحت جاری کی اس کو بھی غلط طریقے سے پیش کیا گیا، میں تو مرسیڈیز استعمال ہی نہیں کرتا۔ پولیس نے عمران خان کے لیے بلٹ پروف مرسیڈیز کا بندوبست کیا تھا، اس بات کو پتہ نہیں کیا سے کیا بنا دیا گیا۔‘

جسٹس عمر عطا بندیال نے مزید کہا: ’ہم نے تو آپ کو دیکھ کر کھلے دل سے ’گڈ ٹو سی یو‘ کہا، کسی اور طریقے سے کہی گئی باتیں رپورٹ ایسے ہوئیں کہ ان سے تاثر غلط گیا۔ اٹارنی جنرل صاحب آپ پر سکون رہیں بیٹھ جائیں۔‘

الیکشن کمیشن کے وکیل سجیل سواتی نے روسٹرم پر آ کر دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ ’انصاف کا حتمی ادارہ سپریم کورٹ ہے اس لیے دائرہ کار محدود نہیں کیا جا سکتا۔ مکمل انصاف اور آرٹیکل 190 کا اختیار کسی اور عدالت کو نہیں ہے۔‘

جس پر چیف جسٹس نے سوال کیا کہ ’کیا 150 سال کی عدالتی نظیریں غیر موثر ہو گئی ہیں؟ 150 سالہ عدالتی نظیروں کے مطابق نظرثانی اور اپیل کے دائرہ کار میں فرق ہے، اس سوال کا جواب آپ نے کل سے نہیں دیا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس موقعے پر جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ ’نظر ثانی دائرہ سماعت پر آپ کی دلیل درست مان لیں تو سپریم کورٹ رولز کالعدم ہو جائیں گے، جن کی تاحال ترمیم نہیں کی گئی۔ دائرہ کار بڑھایا تو کئی سال پرانے مقدمات بھی آ جائیں گے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا: ’کیسے ممکن ہے کہ سپریم کورٹ رولز کا نظرثانی سے متعلق آرڈر 26 پورا لاگو نہ ہو؟ پورا لاگو نہ ہونے سے نظرثانی دائر کرنے کی مدت بھی ختم ہو جائے گی، کیا دس سال بعد کوئی نظرثانی دائر کر کے کہہ سکتا ہے کہ رولز مکمل لاگو نہیں ہوتے؟ آپ کو شاید اپنی دلیل مانے جانے کے نتائج کا اندازہ نہیں ہے۔‘

الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ ’نظرثانی دائر کرنے کے لیے مدت ختم نہیں ہونی چاہیے۔‘ جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ’نظرثانی کا دائرہ کار سپریم کورٹ رولز میں موجود ہے۔‘

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’آرٹیکل 184/3 کا استعمال بہت بڑھ گیا ہے، احساس ہوا ہے کہ اس سے غلطیاں بھی ہو سکتی ہیں۔ آپ کی نظر میں نظرثانی کا دائرہ محدود ہونا درست نہیں ہے، آپ چاہتے ہیں نظرثانی میں دائرہ وسیع کیا جائے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ اس نکتے پر اٹارنی جنرل سے رائے لیں گے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’الیکشن کمیشن نے صدر کو ایک ہی روز انتخابات کی ایڈوائس کیوں نہیں دی؟ صدر مملکت کو 218/3 کا بتایا، نہ ہی 1970 کے انتخابات کا بتایا گیا، الیکشن کمیشن نے صدر کو نہ سکیورٹی کا بتایا نہ فنڈز کا۔ زمینی حالات کا ذکر کیے بغیر کہا جا رہا ہے کہ 218/3 کے تحت الیکشن کمیشن کو مزید اختیارات دیے جائیں۔

’آئین اختیار دیتا ہے تو استعمال کرنے سے پہلے آنکھیں اور ذہن بھی کھلا رکھیں۔‘

الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ ’تلور کے شکار والے کیس میں بھی عدالت نے اپنے فیصلے پر نظرثانی کی اور 16 ہزار نکالے گئے ملازمین کے کیس میں نظر ثانی خارج ہوئی لیکن عدالت نے 184/3 اور 187 کا اختیار استعمال کیا۔ ججز کیس میں بھی عدالت نے اپنا فیصلہ خود تبدیل کیا۔‘

جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت نے ججز کیس میں سوموٹو نظرثانی کی تھی۔

بعد ازاں چیف جسٹس نے کیس کی سماعت کل (25 مئی) تک ملتوی کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے بینچ کے ایک رکن نے دوسرے کیس میں جانا ہے، کل دوبارہ کیس سنیں گے۔

معاملہ آئین کے مطابق ہے، اسے اداروں کے درمیان تصادم نہ سمجھا جائے: بیرسٹر علی ظفر

سماعت کے بعد پی ٹی آئی کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ نے چار اپریل کو فیصلہ کیا تھا کہ 14 مئی کو پنجاب اسمبلی کے الیکشن کروائے جائیں لیکن الیکشن نہیں ہوئے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن نے از سر نو نظر ثانی کی درخواست دائر کی تھی، دو روز سے سماعت جاری ہے ہم نے اپنے جوابات جمع کروا دیے ہیں۔ الیکشن کمیشن کے وکیل یہ بحث کر رہے ہیں کہ نظر ثانی درخواست کی قانونی حیثیت کیا ہے۔

بیرسٹر علی ظفر نے پی ٹی آئی پر پابندی سے متعلق کہا کہ ’ان کی سیاسی جماعت پر نہیں لگائی جا سکتی۔ ماضی میں جماعت اسلامی پر پابندی والا معاملہ مثال کے طور پر سامنے ہے، سیاسی جماعتوں پر پابندی نہیں لگائی جا سکتی، صرف دہشت گرد تنظیموں پر پابندی لگائی جا سکتی ہے۔

پی ٹی آئی کے رہنماؤں کی گرفتاری کے حوالے سے سوال پر انہوں نے کہا کہ ’ابھی رہائی ملتی نہیں کہ اگلی گرفتاری ہو جاتی ہے۔ اس معاملے پر سپریم کورٹ میں بھی ایک درخواست دائر کی گئی ہے۔ آئین کہتا ہے کہ پارلیمنٹ اگر آئین کے خلاف کوئی قانون بنائے گا تو اسے سپریم کورٹ کالعدم قرار دے سکتا ہے۔ یہ معاملہ آئین کے مطابق ہے، اسے اداروں کے درمیان تصادم نہ سمجھا جائے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ عدالت نے کہا ہے کہ ’ہم معاملات کو تحمل سے سنین گے اور آئین و قانون کے مطابق فیصلے کریں گے۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان