کیا انڈین ٹیم کو وراٹ کوہلی کا ’جانشین‘ مل گیا؟

اب جب وراٹ کوہلی اپنے کیریئر کے ناگزیر اختتام کی جانب بڑھ رہے ہیں تو ایک بار پھر یہ سوال انڈین فینز کے دلوں میں مچلنے لگا ہے کہ وہ کون ہو گا جو وراٹ کوہلی کی جگہ لے گا؟

شبھمن گل کے کیریئر پر ایک طائرانہ نگاہ ڈالی جائے تو وہ اپنی اوسط، سٹرائیک ریٹ اور مجموعی پرفارمنس کے حساب سے وراٹ کوہلی کے ہم پلہ محسوس ہوتے ہیں(اے ایف پی)

نومبر 2013 میں انڈین کرکٹ میں ’بھگوان‘ کہلوانے والے سچن تندولکر نے جب اپنے کیریئر کا آخری میچ کھیلا تو نہ صرف انڈین شائقین بلکہ دنیا بھر کے کرکٹ مداح یہ سوال سوچ رہے تھے کہ ’وہ کون ہو گا جو کرکٹ میں تندولکر کی جگہ لے گا؟‘

ویسٹ انڈیز کے خلاف کھیلے جانے والے اس میچ میں سچن تندولکر جب آؤٹ ہوئے تو ان کے بعد وراٹ کوہلی بلے بازی کرنے آئے اور انہوں نے پہلی ہی گیند کو باؤنڈری کی راہ دکھا دی۔

ممبئی کے وانکھڈے سٹیڈیم میں بیٹھے ہزاروں تماشائی جو تندولکر کی آخری اننگز دیکھنے آئے تھے، اب تندولکر کے جانشین کی اننگز دیکھنے میں مشغول تھے۔

وراٹ کوہلی اس وقت تک کرکٹ کی دنیا میں اپنے قدم جما رہے تھے اور چند ایسی اننگز کھیل چکے تھے جو یہ بتانے کے لیے کافی تھیں کہ وہ ایک شاندار کیریئر کی بنیاد رکھ رہے ہیں۔

لیکن سوال وہی کہ تندولکر کی کمی کو بھلا کون پورا کر سکتا ہے؟

وراٹ کوہلی نے اس سوال کا جواب گذشتہ دس سال سے اپنے بلے سے دینے کی بھرپور کوشش کی ہے اور وہ اس میں بڑی حد تک کامیاب بھی رہے ہیں۔

ان کے رنز اور سنچریوں کی تعداد گو کہ تندولکر سے کم ہے لیکن ایسے میچز جن میں کوہلی نے اپنی اننگز سے انڈین ٹیم کو میچ جتوایا ہے وہ تندولکر سے اگر زیادہ نہیں تو کم بھی نہیں ہوں گی۔

اب جب وراٹ کوہلی اپنے کیریئر کے ناگزیر اختتام کی جانب بڑھ رہے ہیں تو ایک بار پھر یہ سوال انڈین فینز کے دلوں میں مچلنے لگا ہے کہ وہ کون ہو گا جو وراٹ کوہلی کی جگہ لے گا؟

اس سوال کا جواب وراٹ کوہلی خود ایک بار نہیں کئی بار دے چکے ہیں کہ وہ کس بلے باز کو انڈین کرکٹ کے مستقبل کے طور پر دیکھتے ہیں۔

ہم بات کر رہے ہیں شبھمن گل کی جو اپنے سٹائل اور ٹیمپرامنٹ سے کرکٹ شائقین کو وراٹ کوہلی جیسے ہی محسوس ہوتے ہیں۔

23 سالہ شبھمن گل کا تعلق بھی پنجاب سے ہے اور انہوں نے اپنے کرکٹ کیریئر کا آغاز بھی پنجاب کی جانب سے ہی کیا۔

2019 میں جب گل نے اپنے کیریئر کا آغاز کیا تو پہلے ہی سال انہیں وراٹ کوہلی کی جانب سے اپنے لیے یہ الفاظ سننے کو ملے۔

’جب میں 19 سال کا تھا تو میں شبھمن گل کے مقابلے میں دس فیصد ٹیلنٹ بھی نہیں رکھتا تھا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

کوہلی گل کے بارے میں انہی خیالات کا اظہار کئی بار کر چکے ہیں اور کرکٹ شائقین اس کی تعبیر کوہلی کا گل کو اپنا ’جانشین‘ قرار دینے سے ہی کرتے ہیں۔

صرف کوہلی ہی نہیں بلکہ سابق انڈین بلے باز سنیل گواسکر بھی گل کی تعریف میں انہیں ’انڈین کرکٹ کا شہزادہ‘ قرار دے چکے ہیں۔

 رواں سال آئی پی ایل کا میچ جس میں وراٹ کوہلی کی ٹیم رائل چیلینجرز بنگلور اور شبھمن گل کی ٹیم گجرات ٹائٹنز مدمقابل تھیں، ایک ایسا نظارہ دیکھنے کو ملا جسے کرکٹ کی دنیا کے پنڈتوں نے ’وراثت کی منتقلی‘ سے تعبیر کر دیا۔

میچ کی پہلی اننگز میں جب وراٹ کوہلی نے اپنے آئی پی ایل کیریئر کی ساتویں سنچری سکور کی تو ان کے فینز اور کرکٹ شائقین اسے ’کوہلی کی واپسی‘ قرار دے کر اپنی خوشی کا اظہار کر رہے تھے۔

لیکن میچ کی دوسری اننگز میں جب گل بلے بازی کرنے آئے تو کسی کے گمان میں بھی نہ تھا کہ وہ اس میچ کی بہترین اننگز کے ساتھ ساتھ یہ میچ بھی اپنی ٹیم کے نام کر دیں گے۔

کوہلی نے 61 گیندوں پر 101 رنز بنائے تو گل نے صرف 52 گیندوں پر 104 رنز کی فیصلہ کن اننگز کھیل ڈالی۔

گل اپنے مختصر لیکن شاندار کیریئر میں تینوں طرز کی کرکٹ میں سنچری سکور کر چکے ہیں، بلکہ ایک روزہ میچز میں وہ تو ڈبل سنچری بھی سکور کر چکے ہیں۔

شبھمن گل کے کیریئر پر ایک طائرانہ نگاہ ڈالی جائے تو وہ اپنی اوسط، سٹرائیک ریٹ اور مجموعی پرفارمنس کے حساب سے وراٹ کوہلی کے ہم پلہ محسوس ہوتے ہیں۔

لیکن کیا گل اپنی اسی کارکردگی کو جاری رکھ سکیں گے اور انڈین شائقین کی امنگوں پر پورے اتر سکیں گے؟

اس کا فیصلہ صرف آنے والا وقت ہی کرے گا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی کرکٹ