اداروں سے بھی بات کرنا چاہتے ہیں جہاں واضح ڈیڈلاک ہے: زلفی بخاری

تحریک انصاف کے رہنما زلفی بخاری نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا: ’ہم جس چیز کی امید کر رہے ہیں وہ یہ ہے کہ اگر مذاکرات ہوں تو کمیٹی کے تمام اراکین کو مذاکرات میں شامل ہونے کے لیے محفوظ راستہ دیا جائے۔‘

پاکستان تحریک انصاف کے رہنما زلفی بخاری (بائیں سے پہلے) کہتے ہیں کہ ہمیں اس وقت اپنے ملک کے لیے بات کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ آگے چل سکے (تصویر: زلفی بخاری فیس بک اکاؤنٹ)

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان نے حکومتی جماعتوں سے مذاکرات کے لیے ایک سات رکنی کمیٹی بنائی ہے لیکن دوسری جانب پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف نے عمران خان سے کسی بھی قسم کے مذاکرات سے صاف انکار کر دیا ہے۔

رواں ماہ کی نو تاریخ کو عمران خان کی نیب کے ہاتھوں مبینہ کرپشن کیس میں گرفتاری کے بعد ملک کے مختلف شہروں میں فوجی تنصیبات اور نجی و قومی املاک پر حملوں کے بعد سے پاکستان تحریک انصاف کی مرکزی قیادت یا تو جیل میں ہے، یا روپوش ہے یا پھر پارٹی سے علیحدگی اختیار کرچکی ہے۔

عمران خان کی جانب سے بنائی گئی مذاکراتی کمیٹی کے اراکین میں شاہ محمود قریشی، پرویز خٹک، اسد قیصر، حلیم عادل شیخ، عون عباس بپی، مراد سعید اور حماد اظہر شامل ہیں۔ ان میں سے کچھ اراکین جیل میں ہیں، کچھ کا عمران خان سے کوئی رابطہ نہیں اور کچھ کو پولیس ڈھونڈتی پھر رہی ہے۔

سوال یہ ہے کہ یہ اراکین اس وقت ہیں کہاں اور یہ مذاکرات کیسے کریں گے؟

اسی سوال کا جواب ہم نے پاکستان تحریک انصاف کے کچھ اراکین، جو کسی نامعلوم مقام سے ہم سے رابطے میں آتے ہیں، سے پوچھا لیکن کسی نے جواب نہ دیا۔ بالآخر تحریک انصاف کے اہم رکن اور عمران خان کے ایک قریبی ساتھی زلفی بخاری بیرون ملک سے ہمیں اپنا جواب دینے کو تیار ہو گئے۔

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں زلفی بخاری کا کہنا تھا: ’لیڈر شپ میں سے بے شک شاہ محمود قریشی جیل میں ہیں اور باقی اپنی حفاظت کے لیے چھپے ہوئے ہیں لیکن ہم جس چیز کی امید کر رہے ہیں وہ یہ ہے کہ اگر مذاکرات ہوں تو کمیٹی کے تمام اراکین کو مذاکرات میں شامل ہونے کے لیے محفوظ راستہ (Safe Passage) دیا جائے۔‘

زلفی بخاری نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا: ’ہمیں اس وقت اپنے ملک کے لیے بات کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ آگے چل سکے۔ سیاسی سطح اور ادارے کی سطح پر ڈائیلاگ کی ضرورت ہے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا: ’سیاسی سطح پر ہمیں یہ بات کرنے کی ضرورت ہے کہ ملک میں جمہوریت کیسے پروان چڑھے گی۔ اس وقت جو بحران ہے وہ یہ ہے کہ ہماری جمہوریت حملے کی زد میں ہے، اس لیے پہلی بات تو یہ ہونی چاہیے کہ ہم کس طرح پاکستان کو بچاتے ہیں اور اسے ایک جمہوری ملک رہنے دیتے ہیں۔‘

زلفی بخاری نے کہا: ’ہاں ہم تمام سیاسی جماعتوں سے بات کرنا چاہتے ہیں لیکن اداروں سے بات کرنا بھی اہم ہے کیونکہ واضح طور پر وہاں ایک ڈیڈ لاک ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’اس وقت ملک کی دو طاقت ور شخصیات ہیں، جن میں سے ایک چیف آف آرمی سٹاف خود اور سیاسی طور پر طاقت ور ترین شخص عمران خان ہیں۔

’اس کا ملک کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا اگر یہ دونوں مذاکرات کی میز پر دیگر سیاسی پارٹیوں کے ساتھ نہیں بیٹھتے اور اس پر بات نہیں کرتے کہ پاکستان کو کیسے اس بحران سے باہر نکالنا ہے جو دن بدن بدتر ہوتا جا رہا ہے۔‘

پاکستان تحریک انصاف تو ہر صورت مذاکرات کے لیے تیار ہے لیکن مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف کسی قسم کے مذاکرات کے حق میں نظر نہیں آتے۔

نواز شریف کے مذاکرات سے انکار کا ملک کی سیاسی صورت حال پر کیا اثر ہوگا؟ یہی جاننے کے لیے ہم نے کچھ سیاسی تجزیہ نگاروں سے بھی رابطہ کیا۔

سابق وزیر اعلیٰ پنجاب اور سیاسی تجزیہ کار حسن عسکری سمجھتے ہیں کہ مسلم لیگ (ن) عمران خان کی جماعت سے عسکری اداروں کی ناراضگی کا فائدہ اٹھانا چاہتی ہے۔

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں انہوں نے کہا: ’ہمیں یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ مسلم لیگ ن این یا پی ڈی ایم کیوں بات نہیں کرنا چاہتی، کیونکہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ چونکہ عسکری ادارے پی ٹی آئی سے ناراض ہیں، ان پر غصہ ہیں، لہذا اسی غصے کا فائدہ اٹھا کر وہ سیاسی منظر نامے سے عمران خان کو ہٹانے کا ایجنڈا حاصل کرنا چاہتے ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’اگر انہیں یہ معلوم ہو جائے کہ فوج کا غصہ نہیں رہا اور وہ مذاکرات چاہتے ہیں تو پھر وہ اس قسم کا فیصلہ نہیں کریں گے۔‘

بقول حسن عسکری: ’پی ڈی ایم انتظامی طور پر عمران خان کو سیاست سے آؤٹ نہیں کر سکتی۔ ہاں اگر ہماری عسکری قیادت چاہے تو ان کی حمایت سے پی ڈی ایم یہ کرنے کا سوچ سکتی ہے لیکن سر دست ایسا ممکن نہیں۔‘

’مذاکرات کا وقت ختم ہو چکا‘

دوسری جانب کالم نگار اور تجزیہ نگار وجاحت مسعود سمجھتے ہیں کہ عمران خان اور ان کی جماعت کے لیے اب مذاکرات کا وقت ختم ہوچکا ہے۔

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں وجاہت مسعود نے کہا: ’عمران خان کی ٹیم کے حکومتی ٹیم سے مذاکرات ہوئے تھے، وہ ایک اہم بریک تھرو تھا کہ قومی انتخابات ایک دن ہونے چاہییں۔ اب یہ طے کرنا باقی تھا کہ کس تاریخ کو ہونے چاہییں، لیکن عمران خان نے مذاکراتی سلسلے کو ختم کر دیا۔

’اب چونکہ عمران خان کا اپنے دوستوں (فوج) کے ساتھ براہ راست تنازع ہے اور اس تنازع میں سیاسی حکومت تو سرے سے فریق ہی نہیں تھی۔ اب اگر اس پریشر کو ختم کرنے کے لیے عمران خان ایک مذاکراتی ٹیم بنا رہے ہیں تو دیکھنا ہوگا کہ اس ٹیم کے لوگ کون ہیں، ان کی کیا اتھارٹی ہے اور کیا اس طرح کے اہم معاملات وہ ٹیم لے کر چل سکتی ہے؟‘

ساتھ ہی انہوں نے کہا: ’میرا خیال ہے کہ مذاکرات کے لیے وقت ختم ہو چکا ہے۔‘

وجاحت مسعود نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ’اگر مارشل لا کی بات کریں تو اس کا امکان نہیں کیونکہ ماضی میں مغرب خاص طور پر امریکہ کی خاموش حمایت (مارشل لا کے حوالے سے) موجود رہی ہے، لیکن موجودہ صورت حال میں پاکستان یورپ اور امریکہ سے الگ تھلگ کھڑا ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا: ’دوسری جانب اس وقت پاکستان کا خزانہ خالی ہے۔ حکومت کے پاس صرف نو ارب ڈالرز پڑے ہیں، جس میں سے سٹیٹ بینک میں موجود چار اعشاریہ تین ارب ڈالرز حکومت کے ہیں اور باقی پانچ ارب ڈالرز نجی بینکوں کے ہیں۔ ہمیں 30 جون تک تین اعشاریہ سات ارب ڈالرز قرض کے ضمن میں واپس کرنے ہیں۔ اس کے بعد ہماری حکومت کے پاس ایک ارب ڈالر سے بھی کم رقم بچے گی۔‘

وجاحت مسعود کے خیال میں: ’مارشل لا ملک کے حالات ٹھیک کرنے کے لیے نہیں لگتا بلکہ اس کے کچھ اور مقاصد ہوا کرتے ہیں اور یہ وہ وقت نہیں ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ جو قصہ اس وقت چل رہا ہے وہ جمہوریت کے لیے ٹھیک نہیں ہے۔

بقول وجاہت مسعود: ’جو لوگ بنی گالہ بڑے جوش و ولولے کے ساتھ گئے تھے، وہ اسی ترتیب سے واپس آرہے ہیں۔ یہ کام سیاسی حکومتیں نہیں کرتیں، نہ ہی ان کے بس میں ہوتا ہے۔

’یہ کام تو ہم نے 30 اکتوبر سے 19 دسمبر 2011 (جو کہ 50 دن بنتے ہیں) کے دوران دیکھا جب 12 اہم ترین لوگ، جن میں شاہ محمود قریشی، جہانگیر ترین، اسحاق خاکوانی اور اعظم سواتی شامل ہیں، عمران خان سے آن ملے تھے۔ 

’اس کے بعد ہم نے 2018 سے پہلے بھی یہ ترتیب دیکھی، جب لوگوں کو بھیجا جاتا تھا اور انہیں دو رنگا جھنڈا گلے میں پہنایا جاتا تھا۔ یہ کام ’مالک‘ کا ہے۔‘

ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ موجودہ صورت حال نہ تو جمہوریت کے لیے اچھی ہے، نہ معیشیت کے لیے اور نہ ہی ملک کے لیے اچھی ہے۔

وجاحت مسعود کے خیال میں: ’عمران خان نے جو مذاکرات کی بات کی، وہ خود کو عوام میں بحال کرنے کی کوشش ہے، ورنہ جن لوگوں کو گذشتہ پانچ، چھ برس میں عمران خان نے سیاسی طور پر ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے وہ کس حیثیت سے عمران خان کومعاف کریں؟

’بدقسمتی ہے کہ جو اتفاق رائے نو مئی کے واقعات کے بعد پوری قوم میں پایا گیا، وہ اتفاق رائے پاکستان ٹوٹنے یا ایک منتخب وزیر اعظم کو پھانسی دینے اور 12 مرتبہ انتخابات میں عوامی مینڈیٹ تبدیل کرنے پر نہیں پایا گیا۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست