سٹیٹ بینک اقدامات: اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی قدر 12 روپے کم

معاشی ماہرین نے اس پیش رفت کو مثبت قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے مہنگائی میں کمی واقع ہو گی۔

یکم جون کی دوپہر کو ڈالر اوپن مارکیٹ میں تین سو روپے سے نیچے گر گیا (فائل فوٹو/اے ایف پی)

اوپن مارکیٹ میں امریکی ڈالر کی قیمت تقریباً 12 روپے کی کمی کے بعد 299 روپے 50 پیسے ہو گئی ہے۔ معاشی ماہرین کے مطابق یہ کمی سٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے گذشتہ روز کریڈٹ کارڈ کی بین الاقوامی ادائیگی کے لیے ڈالر اوپن مارکیٹ کے بجائے انٹربینک مارکیٹ سے حاصل کرنے کی اجازت دینے کے باعث ہوئی ہے۔

گذشتہ روز کے اختتام پر اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی قیمت 311 روپے تھی، جو جمعرات کی دوپہر دو بجے گر کر 299 روپے 50 پیسے ہو گئی۔

سٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب اوپن مارکیٹ کے بجائے انٹربینک مارکیٹ سے ڈالر حاصل کرنے کی اجازت 31 جولائی تک دو مہینے کی مختصر مدت کے لیے دی گئی ہے۔

سٹیٹ بینک نے 2006 میں ایک سرکلر کے ذریعے بنکوں کو امریکی ڈالر ایکسچینج کمپنیوں سے خریدنے کی اجازت دی تھی، جسے 17 سال بعد ختم کر دیا گیا ہے۔

کرنسی ایکسچینج ایسوسی ایشن آف پاکستان کے جزل سیکریٹری ظفر پراچہ نے سٹیٹ بینک کے فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ سٹیٹ بینک کے اس فیصلے سے اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی قیمت میں اتنی کمی واقع ہوئی ہے۔

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے ظفر پراچہ نے کہا، ’حکومت نے صحیح وقت پر درست اور اچھا فیصلہ کیا ہے، جس سے اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی قیمت میں مزید کمی کا امکان ہے، جس کے باعث ڈالر کی قیمت میں انٹربینک اور اوپن مارکیٹ میں بڑا اور واضح فرق تھا، اس فیصلے کے بعد اس کو کم کیا جا سکے گا۔‘

انہوں نے کہا کہ ’عالمی مالیاتی فنڈ یا آئی ایم ایف کو لگتا ہے کہ حکومت نے ڈالر کی قیمت کو مصنوعی طریقے سے کنٹرول کیا ہوا ہے اور ڈالر کی اصل قیمت اوپن مارکیٹ والی قیمت ہی ہے، اس لیے ڈالر کی اوپن مارکیٹ اور انٹر بینک قیمت کو برابر کیا جائے، تو اس فیصلے سے دونوں قیمتوں کو قریب لانے میں مدد ملے گی۔‘

ظفر پراچہ کے مطابق سٹیٹ بینک کے اس فیصلے سے کرنسی ایکسچینج ایسوسی ایشن آف پاکستان سے منسلق تمام کمپنیوں کا کام 80 فیصد تک کم ہو جائے گا، کیوں کہ ان کمپنیوں کے پاس ڈالر کی لین دین کا کام کریڈٹ کارڈ کی ادائیگی سے تھا۔

ظفر پراچہ کے مطابق، ’ہمارا کام کم ہونے اور نقصان ہونے کے باوجود ہم حکومت کے اس فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ اس فیصلے سے جہاں اوپن مارکیٹ اور انٹر بینک میں ڈالر کی قیمت قریب انٹر بینک میں بھی ڈالر مستحکم رہے گا، ملک میں مہنگائی میں کمی آئے گی، بیرونی قرضوں کے حجم میں اچانک بےپناہ اضافے پر بھی کنٹرول ہو گا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

کراچی سے تعلق رکھنے والے مالیاتی امور کے صحافی اور تجزیہ نگار تنویر ملک نے کہا کہ انٹر بینک اور اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی قیمت میں تقریباً 25 روپے سے 30 روپے کا فرق تھا، جو بہت بڑا فرق تھا، اس کو کم کرنے کے لیے سٹیٹ بینک یہ فیصلہ انتہائی اہم ہے۔

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ’حکومت چاہتی ہے کہ بجٹ سے پہلے مہنگائی میں کمی ہو تو اس فیصلے سے جہاں اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی قیمت میں کمی ہو گی اور انٹر بینک میں ڈالر کی قیمت مستحکم ہو گی تو مہنگائی میں کچھ قدر کمی واقع ہو گی۔‘

جب ان سے پوچھا گیا کہ اوپن مارکیٹ کے بجائے انٹر بینک سے ادائیگیوں کے باعث انٹر بینک میں ڈالر کی مانگ کا دباؤ نہیں ہو گا تو تنویر ملک نے کہا کہ اوپن مارکیٹ کا حجم بینکوں کے مقابلے میں انتہائی کم ہے۔

تنویر ملک کے مطابق، ’کریڈٹ کارڈ کی بیرون ممالک ادائیگی ماہانہ تقریباً 15 کروڑ ڈالر سے 20 کروڑ ڈالر ہے، جبکہ کمرشل بینکوں کے پاس تقریباً چھ ارب ڈالر ہیں۔ اگر ان میں ماہانہ 15 سے 20 کروڑ کی ادائیگی ہوتی بھی ہے تو کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا، کیوں کہ بینک اگر ادائیگی کرتا بھی ہے تو ان کے پاس ڈالر آتے بھی رہتے ہیں۔‘

اس سلسلے میں رابطہ مرکزی بینک کے ترجمان سے رابطہ کیا گیا لیکن اس خبر کے فائل ہونے تک ان کی جانب سے کوئی جواب نہیں آیا۔

زیادہ پڑھی جانے والی معیشت